وزیر تعلیم سندھ کا مستحسن اقدام

245

وزیر تعلیم سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی اکلوتی بیٹی اور دو بھتیجیوں کو حیدر آباد کے سرکاری اسکول میں داخل کروا دیا ہے۔ یہ ایک قابل تحسین اقدام ہے۔ انہوں نے اپنے اس بہت اچھے کام کی تشہیر کا انتظام بھی کیا چنانچہ نجی ٹی وی چینلوں پر ان کی وہ تصویر شائع ہوئی جس میں وہ اسکول کے پرنسپل آفس میں بیٹی اور بھتیجیوں کے داخلہ فارم پر دستخط کررہے تھے۔ حکمرانوں کی طرف سے اچھے کاموں کا چرچا کرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ دوسروں میں بھی تقلید کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ ایک عرصے سے یہ بات کہی جارہی تھی کہ حکمرانوں اور طبقۂ اشرافیہ سے وابستہ افراد اگر اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کریں تو اس سے اسکولوں کی حالت بہت بہتر ہوجائے گی۔ یہ قدم اٹھانے میں سندھ کے وزیر تعلیم نے پہل کردی ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے اپنے وزراء کو پابند کردینا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرائیں۔ لیکن جن کے بچے بیرون ملک مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھتے رہے یا پڑھ رہے ہیں وہ اس روایت کو توڑنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ سردار علی شاہ نے بچیوں کو سرکاری اسکول میں داخل کرانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سندھ اسمبلی میں جو اعلان کیا تھا، اس پر عمل کر کے دکھایا ہے، اب ارکان اسمبلی اور محکمہ تعلیم کے افسران کا امتحان ہے۔ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ بھی اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرائیں گے تو معیار تعلیم بہتر ہوگا۔ تبدیلی گھر سے شروع ہونی چاہیے۔ سردار علی شاہ نے سندھ میں بند سرکاری اسکولوں کو کھولنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ سندھ سمیت ملک بھر میں کئی سرکاری اسکول بند پڑے ہیں یا ان پر قبضہ ہوگیا ہے۔ کہیں مویشی باندھ دیے گئے ہیں اور کہیں بااثر افراد نے اپنا اوطاق بنا لیا ہے۔ سکھر کے ایک گرلز اسکول کی رپورٹ ٹی وی پر بھی آچکی ہے جو عرصے سے بند پڑا ہے۔ امید ہے کہ صوبائی وزیر تعلیم ایسے اسکولوں پر بھی توجہ دیں گے جو یا تو بند پڑے ہیں یا سہولتوں سے محروم ہیں۔ محکمہ تعلیم میں جعلی بھرتیوں کا مسئلہ بھی وزیر تعلیم کی توجہ کا منتظر ہے۔ سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر بنانے کے لیے اساتذہ کا معیار اور ان کے معاشی حالات بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔