کیا آپ کو پتا چلا۔ ہمارے خیال میں آپ کو کبھی پتا نہیں چلتا اگر پاکستان کے ایک مایہ ناز وزیر خزانہ اسحق ڈار نہ بتائے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایات معیشت کی تباہی کے لیے ہوتی ہیں۔ حکومتی بدانتظامی نے قرضوں کا بوجھ بڑھایا۔ اس انکشاف کے بعد سب کے ذہن میں خیال آرہا ہے کہ یہ بات تو ہمیں بھی معلوم تھی پھر اسحق ڈار نے کیوں کہی اور اسے انکشاف کیوں تصور کررہے ہیں۔ بہرحال وزیراعظم نے فوری طور پر معلومات تک رسائی کے لیے گزشتہ 10 سال کے قرضوں کا آڈٹ کرانے کا حکم دے دیا۔ انہوں نے سوچا کہ 5 سال بعد کے لیے جواب ابھی سے تیار کرلو۔ چناں چہ ہم اسے پیش بندی سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ پچھلی حکومتیں اربوں روپے لوٹ کر کھا گئیں۔ خیر، ہمیں پچھلی حکومتوں کے اربوں لوٹنے کے اعلان سے دلچسپی نہیں کیوں کہ ان کے بعد آنے والے بھی یہی تو کہہ رہے ہوں گے، صرف نام کا فرق ہوگا۔ ہمیں اس کی خوشی ہے کہ ہر طرف سے اچھی خبریں آرہی ہیں۔
آرمی چیف نے کہا ہے کہ پاکستان تیزی سے دیرپا امن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمیں ایسا لگا کہ یہ بات پہلے بھی سنی ہے اور آپ نے سنی ہوگی کہ جنرل راحیل، جنرل کیانی، جنرل پرویز مشرف سمیت سب ہی یہی کہتے آرہے ہیں۔ امن ہے کہ آتا ہی نہیں۔ کم از کم سب کی زبان پر ہونے کی وجہ سے یہ بیان تو دیرپا ہے۔ آنے والے بھی یہی کہیں گے۔ بہرحال ایک خبر تو پاکستانی قوم کے لیے خوشی کی ہوگی کہ انہیں بھی دس پندرہ سال بعد یہ پتا چل جائے گا کہ پاکستان نے سی پیک کے قرضے کن شرائط پر لیے ہیں اور کتنے لیے ہیں کیسے لیے ہیں۔ یہ کام پاکستانی حکومت نہیں کرے گی بلکہ پاکستانی حکومت کو معاشی دلدل میں دھکیل کر اس سے نکالنے کا کھیل کھیلنے والے ادارے آئی ایم ایف پر اس کارنامے کا سہرا ڈالا جائے گا۔ دراصل آئی ایم ایف نے وزیر خزانہ اسد عمر کو پرتپاک ملاقات کے بعد جو پہلا سوال تھمایا وہ یہی تھا کہ تمام قرضوں کی تفصیل دو۔ پھر آتے ہیں شرائط طے کرنے۔ لہٰذا اب پاکستانی حکمران آئی ایم ایف سے تو گول مول بات کرنہیں سکتے، ساری تفصیل بتانی پڑے گی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کو کیسے پتا چلے گا۔۔۔ جی۔۔۔ یہ مسئلہ یوں حل ہوگا کہ جب دس پندرہ سال بعد آئی ایم ایف پاکستانی حکومت سے ناراض ہوگا تو یہ تفصیل عام کردی جائے گی یا کچھ حصے عام کردیے جائیں گے۔ یوں پاکستانی قوم کو پتا چلے گا کہ اسے کتنے داموں بیچا گیا۔
ایک اور اطلاع ایک اور بڑے ادارے کے سربراہ نے دی، لیکن اسے ہم کیا کہیں اعتراف یا عوام کے لیے وہ بریفنگ نیوز جو سن سن کر اور بھگت بھگت کر عوام خود بریک ہوگئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ جناب چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ جج سب سے زیداہ تنخواہ لے کر بھی انصاف نہیں کررہے، جس نظام کا ڈھانچہ جھوٹ پر ہو وہ کیا کارکردگی دکھائے گا۔ آرمی چیف نے جو کہا ان کا ادارہ اس سے مزید باوقار ہوا، اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ ہم امن دے رہے ہیں، انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم کہاں کہاں ناکام ہورہے ہیں، لیکن چیف صاحب نے تو اپنے ادارے کے بارے میں جو بات فرمائی پوری قوم اس کی گواہ ہے۔ پورے عدالتی نظام کی بنیاد حقیقتاً جھوٹ پر ہے۔ مقدمہ جھوٹ سے شروع ہوتا ہے، گواہ جھوٹے ہوتے ہیں، کاغذات جھوٹے ہوتے ہیں، پھر وکیل صفائی بھی جھوٹے حلف نامے بنواتا ہے جواباً جھوٹے صفائی کے کاغذات بنواتا ہے، اس چکر میں غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں لیکن چوں کہ جھوٹ کا مسئلہ ہے اس لیے لیپا پوتی ہوجاتی ہے۔ اگر ادارے کی کارکردگی پر تبصرہ کروانا ہے تو مسلم لیگ (ن) سے کروالیں، اسی ادارے کے ایک معزز جج شوکت عزیز صدیقی سے کروالیں، پیپلز پارٹی تو برسہا برس عدالتوں کو کینگرو کورٹس کہتی رہی۔ بہرحال چیف جسٹس نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا اور ایک حقیقت کا اعتراف کیا۔ لیکن کیا حقیقت کے اعتراف کے بعد فل اسٹاپ ہے، اصلاح کیسے ہوگی، جوابدہ تو آپ ہی ہیں۔
دلچسپ بیان تو اسحق ڈار صاحب کا ہے جس پر پہلے بات ہونی چاہیے تھی کہ اسحق ڈار صاحب کو یہ بات پتا کب چلی کہ آئی ایم ایف کی شرائط ملکی معیشتوں کو تباہ کرنے کا موجب ہوتی ہیں۔ پھر وہ کیوں دوڑے دوڑے جاتے تھے، ظاہر ہے ان کے پاس اس کا جواب تو نہیں کہ کیوں جاتے تھے ان کے پاس بھی اعداد و شمار ہیں کہ ڈالر اتنے کا تھا ہم نے نیچے پہنچایا، زرمبادلہ کے ذخائر کم تھے ہم نے بڑھائے، لیکن جس طرح ایک ایک فیصلے میں وہ ملک اور عوام کے قرضوں میں اضافہ کرتے تھے اسی طرح موجودہ حکومت نے بھی ڈالر کی قدر بڑھا کر کیا۔ اب وہ بھی رفتہ رفتہ نیچے لے آئیں گے، لیکن اس سے جو ہونا تھا ہوچکا، ڈالر تو روز کم ہورہا ہے لیکن انڈے، سبزی، پھل اور دیگر اشیائے خورو نوش روز بروز مہنگی ہورہی ہیں۔ عمرہ کرنے پر بھی ڈالر کی وجہ سے ساڑھے 12 فی صد اضافی اخراجات آئیں گے، لیکن ڈار صاحب اور اسد عمر صاحب کو ابھی سے کچھ نہ کہیں پانچ سال بعد وہ بھی سمجھ جائیں گے اور ممکن ہے یہی بیان دے رہے ہوں ’’آئی ایم ایف کی شرائط معیشت تباہ کرنے کے لیے ہوتی ہیں‘‘۔ بہرحال حکومت کا عزم ہے کہ بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے، پورے شریف خاندان کو جیل میں ڈالیں گے اور ملک بھر کے بیت الخلا صاف کرائے جائیں گے، کیوں کہ بیت الخلا صاف ہو تو وہاں زیادہ وقت بیٹھا جاسکتا ہے اور پھر صاف صاف خیالات ذہن میں آتے ہیں۔ ہماری بھی دعا ہے کہ خان صاحب 50 لاکھ گھر بنائیں اور ہر ایک کا بیت الخلا صاف ہو۔ جس طرح ایک کمپنی کے اشتہار میں مشہور شخصیت آکر بیت الخلا صاف کرتی ہے اسی طرح 50 لاکھ گھروں کا اشتہار ذہن میں آرہا ہے کہ پاکستان کی ایک بہت مشہور شخصیت ان 50 لاکھ گھروں کا بیت الخلا صاف کرکے کہے گی کہ۔۔۔ صفائی اسے کہتے ہیں۔