اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان سے ملحق پانچوں تنظیمات کے سربراہان کی بدھ 3اکتوبر کو وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں ملاقات ہوئی، یہ ملاقات تقریباً 55منٹ پر محیط تھی۔ وفد میں راقم الحروف (مفتی منیب الرحمن) کے علاوہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا انوارالحق حقانی، صاحبزادہ محمد عبدالمصطفیٰ ہزاروی، مولانا قاضی نیاز حسین نقوی، مولانا عبدالمالک، ڈاکٹر عطاء الرحمن اور مولانا یاسین ظفر شامل تھے۔ اس سے پہلے ’’نیشنل ٹاسک فورس فار ایجوکیشن‘‘ کے اجلاس میں مجھے کراچی سے وڈیو لنک پر شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ میں نے اُس میں جو مَوقِف پیش کیا، اُس کی تفصیل ’’دینی مدارس وجامعات کا مسئلہ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ دنیا میں اپنے 17ستمبر 2018ء کے کالم میں لکھ چکا ہوں۔ 3اکتوبر کے اجلاس میں حکومت کی طرف سے وزیرِ تعلیم جنابِ شفقت محمود، وزیرِ مذہبی امور صاحبزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری، وزیر مملکت برائے داخلہ جناب شہر یار آفریدی اور وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور نعیم الحق شامل تھے۔
ہم نے عمران خان کو وزیرِ اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منصب پر فائز ہونے پر مبارک باد دی اور اُن سے کہا: آپ نے اپنی سیاسی مہم کے دوران عوام کو جو حسین خواب دکھائے ہیں اور عوام نے آپ سے جو بلند تر توقعات وابستہ کی ہیں، ہماری دعا ہے کہ آپ اس میں سرخرو ہوں، پاکستان کی فلاح اسی میں ہے،کیوں کہ اگر عوام کو ان خوابوں کی تعبیر نہ ملی تو آئندہ وہ تبدیلی کی نوید سنانے والے کسی سیاسی رہنما پر بھروسا کرنے میں تردُّد کریں گے۔
ہم نے وزیرِ اعظم کو بتایا کہ دینی مدارس کی پانچ تنظیمات ہیں: تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان، وفاق المدارس العربیہ پاکستان، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، وفاق المدارس السلفیہ پاکستان اور رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان۔ ان تنظیمات کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، البتہ ان سے ملحق کسی ادارے کا سربراہ ذاتی حیثیت میں عملی سیاست میں حصہ لے سکتا ہے اور بعض حضرات سیاسی میدان میں موجود ہیں۔ تاہم حکومتِ وقت کی غلط پالیسیوں یا اقدامات پر گرفت کرنا، اصلاح کی غرض سے تنقید کرنا اور اچھی باتوں کی تحسین کرنا ہماری دینی ذمے داری ہے اورہم یہ فریضہ انجام دیتے رہیں گے۔ مزید یہ کہ آپ اپنے وزیرِ اطلاعات فواد حسین چودھری پر پابندی عائد کریں کہ وہ حساس دینی موضوعات پر سیاسی تبصرے سے گریز کریں، ورنہ وہ آپ کے لیے اثاثہ بننے کے بجائے ناقابلِ برداشت بوجھ بن جائیں گے۔ سیاسی معاملات میں وہ اپنا شوق ضرور پورا کریں، لیکن دینی معاملات پر حکومت کی ترجمانی کی ذمے داری آپ وزیرِ مذہبی امور ڈاکٹر نورالحق قادری کو دیں، کیوں کہ وہ صاحبِ علم ہیں، مذہبی معاملات کی حساسیت کو بھی بخوبی جانتے ہیں اور اہلِ علم کے درمیان اُن کا احترام بھی ہے۔
ہم نے اُن سے کہا: بیرونی دباؤ کے تحت ماضی میں بھی حکومتیں دینی مدارس وجامعات کے مسئلے پر مذاکرات کا ڈول ڈالتی رہی ہیں، لیکن جنرل پرویز مشرف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن تینوں ادوار میں مسئلہ حل نہ ہوسکا، ہر بار نتیجہ یہی برآمد ہوا:
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا
اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران وقت گزاری کے لیے یہ کام کرتے ہیں، سیاسی عزم نہیں ہوتا اور بیوروکریسی آخر میں طے شدہ امور کی نفی کردیتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا: میرے بیرونِ ملک بینکوں میں پیسے نہیں ہیں، مجھ پر کوئی بیرونی دباؤ نہیں ہے، میری اپنی خواہش ہے کہ دینی مدارس کے بچوں کا مسئلہ احسن طریقے سے حل ہو، کیوں کہ یہ بھی قوم کے بچے ہیں اور اس ملک پر ان کا بھی حق ہے، ہمارے نزدیک وزیرِ اعظم کا یہ جذبہ قابلِ تحسین ہے۔
ہم نے کہا: ’’ہم آپ کے جذبات کی قدر کرتے ہیں اور آپ سے گزارش ہے: ’’نیشنل ٹاسک فورس فار ایجوکیشن‘‘ کے تحت جس طرح اور ذیلی کمیٹیاں بنی ہیں، دینی مدارس وجامعات کے مسائل کا حل نکالنے کے لیے بھی ایک ذیلی کمیٹی بنائیں، جس میں ہماری پانچوں تنظیمات کاایک ایک نمائندہ ہو اور حکومت کی طرف سے وزیرِ تعلیم شفقت محمود، وزیرِ مذہبی امور صاحبزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری، وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی اور فیڈرل بورڈ آف ایجوکیشن اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ایک ایک نمائندہ شامل ہو۔ یہ کمیٹی با اختیار ہو، اسے آپ کی پوری تائید وحمایت حاصل ہو، بیوروکریسی کو ہدایت ہو کہ وہ رکاوٹیں ڈالنے کے بجائے رکاوٹوں کو دور کریں اور اس مسئلے کو حل کریں، وزیرِ اعظم نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر وزیرِ اعظم کی ہدایات پر لفظاً ومعناً عمل کیا گیا تو مختصر عرصے میں اس مسئلے کا جامع اور قابلِ عمل حل نکل آئے گا۔ ہم نے کہا: ہر حکومت بار بار دینی مدارس وجامعات کو مرکزی دھارے میں لانے کی بات کرتی ہے، یہ مہم آپ صرف اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے تعاون ہی سے سرکر سکتے ہیں، ہم سب مثبت سوچ کے حامل ہیں، لیکن کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت ملک بھر میں پھیلے ہوئے دینی مدارس وجامعات کے وسائل اور استعداد (Capacity)کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوگا، ایک مرتبہ نیٹ ورک میں آنے کے بعد بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔
ہم نے کہا: آئے دن مدارس میں کسی نہ کسی ادارے یا ایجنسی کا نمائندہ چلا آتا ہے اور طرح طرح کے پروفارمے تھما دیتا ہے، اس سلسلے کو موقوف کیا جائے اور آپ کی طرف سے ایک ہدایت نامہ (Directive) جاری ہو۔ ایجوکیشن ٹاسک فورس کی ’’ذیلی کمیٹی برائے دینی مدارس وجامعات‘‘ جب اتفاقِ رائے سے پالیسی طے کرلے گی اور ’’ون ونڈو آپریشن‘‘ کا مکینزم تیار ہوجائے گا، تو ادارے خود تمام مطلوبہ معلومات فراہم کردیں گے، ہم پہلے ہی حکومتی نمائندوں کے ساتھ اتفاقِ رائے سے رجسٹریشن فارم مرتّب کرچکے ہیں۔ ہم نے کہا: دینی اداروں سے تو سوال کیا جاتا ہے کہ پلاٹ آپ کے نام پر لیز ہے یا الاٹ شدہ ہے یا کیسے حاصل کیا، لیکن ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہائی پروفائل انگلش میڈیم اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے کوئی جاکر یہ سوال نہیں کرتا۔ نوّے فی صد ادارے رہائشی بنگلوں میں قائم ہیں، اُن کو کمرشلائز بھی نہیں کیا گیا، لیکن چوں کہ وہ بااثر لوگ ہیں، اس لیے کسی ایجنسی کا کارندہ اُن کے گیٹ کے اندر داخل ہی نہیں ہوسکتا، تو کیا غریب وامیر کے لیے معیارات ہمیشہ الگ رہیں گے، یہ وعید تو علامہ اقبال نے بہت پہلے سنادی تھی:
تقدیر کے قاضی کا، یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا، مرگِ مفاجات
وزیر اعظم نے وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی کو ہدایت کی کہ اس مسئلے کو حل کریں، انہوں نے کہا: میں اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی قیادت کے ساتھ تفصیلی اجلاس منعقد کروں گا اور اس میں متعلقہ اداروں کے ذمے داران کو بھی مدعو کروں گا تاکہ ان کے تحفظات بھی سامنے آئیں اور مسئلے کا قابلِ عمل حل نکالا جائے، ہم نے اس سے اتفاق کیا۔
وزیر اعظم کے سامنے غیر ملکی طلبہ کے داخلوں کا مسئلہ بھی پیش کیا گیا اور گزارش کی گئی کہ اس کے لیے بھی آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے قابلِ عمل طریقۂ کار وضع کیا جائے، انہوں نے اس پر بھی غور کرنے کا وعدہ فرمایا۔ پاکستان سے بھی طلبہ حصولِ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جاتے ہیں، اسی طرح بعض ممالک کے طلبہ ہماری یونیورسٹیوں میں حصولِ تعلیم کے لیے آتے ہیں، تو پھر مذہبی تعلیم کے ساتھ امتیازی برتاؤ نہیں ہونا چاہیے، تمام علماء نے اتفاقِ رائے سے جمعے کی چھٹی کا بھی مطالبہ کیا۔
ہم نے اُن سے کہا: آپ نے پاکستان میں دو تین نسلوں سے رہائش پزیر افغانی اور بنگالی باشندوں کو قومی شناختی کارڈ دینے کی بات کی، تو ہم نے آپ کی حمایت کی کہ انسانی اقدار اور اخوتِ اسلامی کا تقاضا یہی ہے، اگرچہ لبرل عناصر اس کے مخالف ہیں اور قوم پرست اس مسئلے پر منقسم ہیں۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیرمین کا بیان نظر سے گزرا کہ بجلی چوری کے بارے میں علماء سے فتویٰ لیا جائے، تو میں نے عرض کیا: یہ فتویٰ میں بہت پہلے جاری کرچکا ہوں، اخبارات میں بھی چھپ چکا ہے اور میرے فتاویٰ کے مجموعہ ’’تفہیم المسائل‘‘ میں موجود ہے، کیوں کہ جب تک بلنگ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، بجلی کے بحران پر پوری طرح قابو پایا نہیں جاسکے گا اور گشتی قرضوں کا لا متناہی سلسلہ جاری وساری رہے گا۔ کم آمدنی والے طبقات کے لیے اگر ایک خاص سلیب تک محدود یونٹ مفت یا رعایتی شرح سے دینے ہیں، تو اس کی بھی بلنگ ہونی چاہیے۔ اسی طرح کراچی ماسٹر پلان کے بارے میں بھی ہم نے وزیرِ اعظم کے موقف کی حمایت کی۔ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے مدارس کے اِن مسائل کا ذکر کیا: یوٹیلٹی بلوں میں رعایت، رجسٹریشن میں رکاوٹ کا خاتمہ، کھالوں کے جمع کرنے پر پابندی، شیڈول بینکوں میں اکاؤنٹس کھولنے رکاوٹیں، علماء پر شیڈول فور کا اطلاق وغیرہ، وزیرِ اعظم نے ان مسائل کی بابت فوری طور پرکوئی منفی یا مثبت ردِّ عمل نہیں دیا۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ اجلاس نہایت خوشگوار ماحول میں منعقد ہوا، وہ کافی با اعتماد نظر آرہے تھے۔ بادی النظر میں ہم نے انہیں مثبت سوچ کا حامل پایا، اگر ان کے رُفقائے کار اور اسٹیبلشمنٹ میں فیصلہ سازی کے مناصب پر فائز عناصر نے صدقِ دل سے ان کے ساتھ تعاون کیا، تو یہ توقع کرنے کی گنجائش موجود ہے کہ ان شاء اللہ العزیز مسائل کا حل نکل آئے گا۔
ہمیں بھی احساس ہے کہ ملک کا اصل مسئلہ اقتصادی ہے اور اس کا کوئی قابلِ عمل حل سامنے نہیں آیا، ضمنی بجٹ وقت گزاری کے سابق اقدامات کا چربہ ہے، ابھی کسی انقلابی تبدیلی کے آثار نمایاں نہیں ہیں۔ وزیرِ اعظم کے مندرجہ ذیل اقدامات قابلِ تحسین ہیں: سیکریٹ فنڈ اور صوابدیدی فنڈ کا سلسلہ موقوف کیا جانا احسن اقدام ہے، لیکن ان اقدامات کو مستقبل میں رول بیک کرنے سے بچانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہوگی، اس کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری لازمی ہے۔ لیکن سب کو معلوم ہے کہ ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں حکومت کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے۔ ہمیں جوہری تبدیلیوں کے حامل بعض اقدامات کے لیے سیاسی اور قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے، لیکن سرِ دست ہم سیاسی انتشار کے مرحلے سے گزر رہے ہیں،
مولانا عبدالمالک نے کہا: پاکستان کو ریاستِ مدینہ کی نظیر بنانے کے دعوے کا تقاضا ہے کہ سود کا فوری خاتمہ کیا جائے۔