اس دفعہ آر ٹی ایس نہیں بیٹھا؟

291

ملک بھر میں ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو زبردست دھچکا لگا ہے، پارٹی اپنے سربراہ عمران خان کی جیتی ہوئی نشستیں بھی ہار گئی۔ 11 قومی نشستوں میں سے 4 مسلم لیگ (ن) جیت گئی۔ جب کہ (ن) لیگ اب بھی شاکی ہے کہ اس کی نشستوں پر نتائج روکے گئے اور دھاندلی کی گئی ہے۔ اصل دھچکا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو لاہور کی دونوں نشستوں پر واضح شکست ہوئی۔ اٹک اور فیصل آباد بھی ہاتھ سے نکل گئے اور بنوں بھی ایم ایم اے کے پاس واپس چلا گیا۔ کئی شہروں میں پی ٹی آئی صرف تین ماہ قبل جیتی ہوئی نشستیں ہار گئی، صرف کراچی کی سیٹ بچ سکی۔ اس کا کیا سبب ہے، مسلم لیگ (ن) کا تو کہنا ہے کہ پہلے دھاندلی ہوئی تھی اب سرپرست نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ دراصل ہم نے مداخلت نہیں کی تھی، پی ٹی آئی کے ایک ترجمان فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ ہمارے کچھ امیدوار بھی کمزور تھے اور ہم نے مداخلت نہیں کی۔ گویا اصل چیز مداخلت ہے، کیوں کہ 25 جولائی کو تو اس سے بھی کمزور امیدوار جیتے تھے، 25 کو مداخلت ہوئی اور طاقتور مداخلت ہوئی تھی اس لیے کھمبے کھونٹے سب جیت گئے۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ جن قوتوں پر مداخلت اور دھاندلی کا الزام ہے وہ بھی دباؤ میں ہیں، ممکن ہے اس وجہ سے زیادہ کام نہ دکھایا گیا ہو۔ 25 جولائی کے الیکشن پر سب سے زیادہ اعتراض آر ٹی ایس (رزلٹ ٹرانسفر سسٹم )کے فیل ہوجانے کے حوالے سے تھا۔ جب نتائج نہیں دیے گئے اور اعتراض سامنے آیا تو الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ آر ٹی ایس بیٹھ گیا تھا۔ نادرا حکام نے فوری نوٹس لے لیا اور الیکشن کمیشن حکام کو آر ٹی ایس چلا کر دکھادیا۔ اس کے بعد کچھ عرصے خاموشی رہی اب زبردستی آر ٹی ایس بیٹھ جانے کی تحقیقات ہورہی ہے۔ لیکن ضمنی انتخابات کے نتائج سے لگ رہا ہے کہ آر ٹی ایس 25 جولائی کو نہیں 14 اکتوبر کو بیٹھا،یا بٹھایا گیا۔ ضمنی انتخاب کے نتائج دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اب کی بار مساوی تقسیم کی گئی ہے۔ چار چار دو ایک۔۔۔ یعنی پی ٹی آئی اور اتحادی کی 6 اور (ن) لیگ کی 4 نشستیں، ایک نشست ایم ایم اے کو ملی۔ ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کو یہ پیغام دیا گیا ہو کہ ہم جب چاہیں آر ٹی ایس بٹھا سکتے ہیں۔ لہٰذا جیسا کہا جائے ویسا ہی کرنا۔ جہاں تک کراچی کی نشست بچالینے کا تعلق ہے تو اس کا وہی سبب ہے جو کراچی سے عمران خان کی کامیابی کا تھا۔ متحدہ قومی موومنٹ کو غیر فعال کیا گیا پھر اس کے کئی ٹکڑے کیے گئے پھر ان میں بھی اختلافات پیدا کردیے اس کے نتیجے میں جو لوگ پہلے ہی ایم کیو ایم سے بدظن ہورہے تھے انہیں متبادل کی تلاش تھی وہ عمران کی صورت میں نظر آرہا تھا۔ لہٰذا نشست پی ٹی آئی کو مل گئی۔ اس لیے اسے کراچی کی نشست بچالینا نہیں کہا جائے گا بلکہ کراچی کے حالات اب بھی اسی طرح ہیں جیسے 2017ء میں تبدیل ہوئے تھے۔ اس لیے پی ٹی آئی کے لیے سازگار تھے۔ یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ عوام نے پی ٹی آئی کی پالیسیوں کی وجہ سے اسے ضمنی انتخاب میں مسترد کیا ہے۔ کیوں کہ ابھی تو دو ماہ ہوئے ہیں اتنے دنوں میں کسی پارٹی کو پرکھ کراس کے خلاف فیصلہ دینے کی صلاحیت پاکستانی قوم میں اب تک پیدا نہیں ہوئی ہے۔ یہ تو معاملہ ہی کوئی اور لگتا ہے۔ اگر کارکردگی اور پالیسی بنیاد ہوتے تو پیپلز پارٹی بار بار سندھ میں نہ جیتتی۔ (ن) لیگ بار بار پنجاب میں نہ جیتتی۔ لاہور میں تو پھر بھی کچھ نہ کچھ کام ہوا ہے جو نظر بھی آرہا ہے لیکن ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کا جو کام ہوگیا ہے وہ اپوزیشن کے دس احتجاجی جلسے بھی نہیں کرسکتے تھے۔