پاکستان بنائیں یورپ نہیں

304

 

وزیراعظم نے جھاڑو ہاتھ میں اٹھائی، بیت الخلا کی صفائی کا حکم دیا اور نوید سنائی کہ پاکستان پانچ سال میں یورپ سے زیادہ صاف نظر آئے گا۔ دس ارب درخت لگانے سے موسم تبدیل ہوجائے گا۔ انہوں نے اسلام آباد ماڈل کالج برائے طالبات میں جھاڑو بھی پھیری اور کیاریوں سے کاغذ بھی اٹھائے۔ پہلے ایسے بیانات سن کر ہنسی آتی تھی لیکن اب غصہ آنے لگا ہے۔ وہ اس ملک میں گھوم رہے ہیں جاتی امرا میں ہیں جو کہتے تھے کہ لاہور پیرس سے اچھا ہوجائے گا۔ وہ لوگ بھی یہیں گھوم رہے ہیں جو کہا کرتے تھے کہ لاڑکانہ اور نوابشاہ لندن اور امریکا سے اچھے ہوجائیں گے، بس ہمیں ووٹ دے دو۔ یہ قوم ووٹ دے دے کر تھک گئی لیکن پاکستان کا کوئی شہر لندن اور پیرس نہیں بن سکا۔ قوم کی تھکن کو ملحوظ رکھتے ہوئے خلائی مخلوق نے فیصلہ کیا کہ لوگ ووٹ دیں یا نہ دیں۔ ہم اچھے اچھے نتائج تیار کردیتے ہیں۔ پاکستان کو پانچ سال میں یورپ سے زیادہ صاف کرنے کے لیے جھاڑو اٹھانا اور بیت الخلا صاف کروانا بہت ضروری تھا لہٰذا وہ یہ ضروری کام کررہے ہیں لیکن ایک خوف پیدا ہوگیا ہے۔ وزیراعظم کو بلاوجہ یورپ کو نہیں چھیڑنا چاہیے تھا۔ انگریز اس معاملے میں بڑا نازک مزاج واقع ہوا ہے کہ کوئی اس کے مقابلے پر آئے۔ کجا کہ اس سے زیادہ صاف ہوجائے۔ یہ پتا نہیں کہ یورپ کو زیادہ غصہ ہے یا ہمیں۔ ہم تو اس لیے غصے میں آگئے کہ کئی مرتبہ لاڑکانہ گئے، درجنوں بار لاہور گئے کہ شاید اب تو لندن پیرس کے برابر آگئے ہوں گے لیکن ہر مرتبہ مایوسی ہوئی۔ بہرحال ہم تو یقین نہیں کرتے، پانچ سال میں پاکستان یورپ سے بھی زیادہ صاف ہوگا۔
لگتا ہے وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم ابھی تک کنٹینر پر ہی ہے، ان کے اوپنر اسد عمر نے دعویٰ کیا ہے کہ ناقابل قبول شرائط رکھیں تو آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیں گے۔ چلیں اسے بھی چند دنوں میں دیکھ لیں گے، دوسرا اوپنر شاہ محمود قریشی کہتا ہے کہ پیسہ ہی نہیں تو ملک کہاں سے چلائیں، لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے پیسہ لانا ہوگا۔ سرکار کی یہ باتیں پرائیویٹ سیکٹر میں بھی مالکان نے سیکھ لی ہیں کہ پیسہ ہوگا تو تنخواہ دیں گے، پیسہ ہوگا تو کارکنوں کو واجبات دیں گے۔ بہرحال وزیراعظم کے بیان اور اسد عمر کے بیان پر ہمیں یقین نہیں ہے بلکہ یقین اس پر ہے کہ چوں کہ یہ لوگ اسی ٹیم کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں جو گزشتہ حکمرانوں کی ٹیم میں تھے اس لیے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ البتہ تبدیلی کے لیے یورپ کی صفائی کی باریکیاں دیکھنی ہوں گی، قوم کی تربیت کرنا ہوگی، مزاج بدلنا ہوگا۔ یورپ میں تو اتنی باریکی ہے کہ اگر آپ بسکٹ یا ٹافی کا ریپر پھینک رہے ہیں تو جو ریپر ری سائیکل ہے اس کا ڈبہ الگ ہے اور جو ری سائیکل نہیں ہے اس کا ڈبہ الگ ہے۔ گیلے اور سوکھے کا الگ ہے، وہاں تو کتے کے ساتھ پارک میں ٹہلنے والا شخص ہاتھ میں پلاسٹک کے دستانے اور جیب میں تھیلیاں رکھتا ہے۔ اگر راستے میں کہیں کتا پوٹی کردے تو اسے اٹھا کر تھیلی میں ڈالنا کتے کے مالک کی ذمے داری ہے، ورنہ ہزاروں پاؤنڈ جرمانہ ہے۔ یہ جرمانہ صرف عوام کے لیے نہیں ہے بلکہ خاص و عام کے لیے ہے۔ یہاں تو کتا پتا نہیں کہاں کہاں بیٹھتا ہے، کبھی صوفے پر اور کبھی۔۔۔ اس پر ہم بات نہیں کرتے۔ اب تک تو کتاب بہت سے لوگوں نے پڑھ لی ہوگی کتا کہاں کہاں رہتا تھا۔ بہرحال کتاب کی مصنفہ سے یہ بھی پوچھنا ہے کہ بیت الخلا پہلے بھی اسی طرح صاف کرتے تھے اور یہ کہ کرتے بھی تھے کہ نہیں۔ قوم کی تربیت کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ یورپ والے مسلمان نہیں لیکن وہاں مسلمانوں کی ایک خصوصیت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ اور وہ ہے ہمیشہ سچ بولو، وہ ہم سے سچ بولیں یا نہ بولیں لیکن اپنے عوام سے سچ ہی بولتے ہیں اور جو بات ایک مرتبہ کہہ دی اس کی برسوں بعد بھی تردید نہیں کرتے یا یوں کہہ لیں کہ اس کے الٹ بات نہیں کرتے۔ ہاں یہ کہتے ہیں کہ اب میرا خیال تبدیل ہوگیا ہے لیکن جتنی فکری گندگی ہمارے حکمرانوں میں ہے اسے کون صاف کرے گا۔ ایک دوسرے پر الزام لگانا عدالتوں میں زیر سماعت مقدموں کے بارے میں فیصلے سنانا۔ غریب اور امیر کے لیے الگ الگ قانون جب تک یہ ٹھیک نہیں ہوگا صفائی نہیں ہوگی۔ صفائی تو فکر کی ہونی چاہیے دماغ میں جب یہ خیال ہوگا کہ میں ہی صحیح ہوں باقی سب غلط تو پھر خاک صفائی ہوگی ساری عمر جھاڑو لیے پھرتے رہیں۔ اسلام آباد صاف نہیں ہوگا پورا پاکستان کیسے ہوگا۔ اگر صفائی چاہتے ہیں تو ہر پارٹی سے جمع کیے ہوئے ایلو کٹے اپنی صفوں سے نکالیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر جن باتوں پر تنقید کرتے تھے وہ نہ کریں۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے مرجائیں۔ یہی تو کہا تھا کہ مرجاؤں گا۔ ڈالر پر ایک روپے قرض کی بات کی تھی۔ لیکن اب دس روپے بڑھا کر کھربوں قرض بڑھادیا۔ اس سوچ کو ذہن سے صاف کریں پاکستان کو پاکستان بنائیں یورپ نہیں۔ ورنہ ہر ایک کے بیڈ روم اور صوفوں میں کتے ہی ہوں گے۔