ترکی کے مردِ آہن جناب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے اپنے ملک میں آئی ایم ایف کا کھاتا ہمیشہ کے لیے بند کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کی معیشت خواہ کیسی ہی مشکل صورتِ حال سے دوچار ہو، ہم آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ اردوان نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ مشکل فیصلوں میں عوام ان کا ساتھ دیں گے اور ملکی معیشت جلد اپنی ڈگر پر آجائے گی۔ واضح رہے کہ ترکی کو امریکی دباؤ اور پابندیوں کے سبب معاشی اعتبار سے انتہائی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں ترکی لیرا کی قیمت تیزی سے گر رہی ہے۔ ترکی تیل پیدا کرنے والا ملک نہیں ہے اس کا تمام تر انحصار اپنی برآمدات اور خود کفالت پر ہے، قابل تحسین پہلو یہ ہے کہ ترکی پر فی الحال کوئی بیرونی قرضہ نہیں ہے البتہ اسے ملکی اخراجات کے لیے وافر سرمایے کی ضرورت ہے۔ امریکا نے ترکی کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے وہ طیب اردوان کی حکومت کو ہر قیمت پر گرانا چاہتا ہے کیوں کہ وہ عالم اسلام میں امریکی استعمار کے خلاف نہایت توانا آواز ہے۔ اردوان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی ٹرمپ کو للکار چکے ہیں۔ انہیں زیر دام لانے کا سب سے موثر حربہ آئی ایم ایف کا تھا لیکن اردوان نے اس جال میں پھنسنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ترکی میں آئی ایم ایف کا کھاتا ہمیشہ کے لیے بند کرچکے ہیں اسے دوبارہ نہیں کھولیں گے اور روکھی سوکھی کھا کر خود انحصاری کی پالیسی پر عمل کریں گے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ عشرے ڈیڑھ عشرے پہلے ملائیشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد پر بھی ایسے ہی کڑا وقت آیا تھا جب وہ وزیراعظم کی حیثیت سے آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کررہے تھے اور امریکا ان سے سخت ناراض تھا۔ امریکی سرمایہ کاروں نے ملائیشیا کی اسٹاک ایکسچینج میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی تھی، ملائیشیا کی صنعت میں بھی امریکی سرمایہ لگا ہوا تھا، چناں چہ امریکی حکومت کے اشارے پر امریکی سرمایہ کاروں نے راتوں رات اپنا سرمایہ ملائیشیا سے نکال لیا۔ ملائیشین اسٹاک ایکسچینج بلبلے کی طرح بیٹھ گئی، ملائیشین ڈالر کوڑیوں کے مول ہوگیا، صنعتیں جام ہوگئیں اور مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی تو امریکا کی باچھیں کھل اُٹھیں، اس نے آئی ایم ایف کو اشارہ کیا کہ وہ ملائیشیا کو بیل آؤٹ پیکیج کی پیش کش کردے۔ چناں چہ آئی ایم ایف کا وفد کوالمپور پہنچا اس نے ڈاکٹر مہاتیر محمد سے مذاکرات کیے اور اپنی پیش کش کو دہرایا۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے وفد کی بات سُنی اور یہ کہہ کر وفد کی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا کہ وہ اپنے ملک کی سیاسی آزادای کو گروی نہیں رکھ سکتے۔ پھر انہوں نے عوام پر ناروا بوجھ ڈالے بغیر سخت ترین اقتصادی اقدامات کیے۔ تمام ناجائز اور غیر قانونی دولت بحق سرکار ضبط کرلی گئی۔ جائز دولت اور قانونی سرمایہ کاروں پر بھاری ٹیکس لگادیا گیا۔ درآمدات محدود کردی گئیں اور زندگی کے ہر شعبے میں بچت کی حوصلہ افزائی کی جانے لگی۔ خود ڈاکٹر مہاتیر محمد نے سادگی و کفایت شعاری کی نادر مثال قائم کی، اندرون ملک بڑے جہاز کے بجائے تھری سیٹر اُڑن کھٹولے پر سفر کرنے لگے۔ اس میں ایندھن اتنا ہی صرف ہوتا تھا جتنا ایک رکشے میں۔ کابینہ کا سائز نہایت مختصر کردیا اور بیشتر ذمے داریاں خود سنبھال لیں، رہ گئے مشیر اور معاون خصوصی تو ان کا تصور ہی نہ تھا، یوں وہ ایک دو سال کے اندر ہی ملائیشیا کی معیشت کو بحال کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے بیس سال تک ملائیشیا پر حکومت کی اور اپنے ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ عوام انہیں بدستور برسراقتدار دیکھنا چاہتے تھے لیکن وہ اپنی پیرانہ سالی کے سبب رضا کارانہ طور پر اقتدار سے دستکش ہوگئے۔ ابھی ایک انتخابی ٹرم بھی نہ گزری تھی کہ ان کے جانشینوں نے ملک کی خدمت کرنے کے بجائے لوٹ مار شروع کردی، کرپشن نے ملک میں پنجے گاڑ دیے تو عوام کے اصرار پر مہاتیر محمد کو پھر منظر عام پر آنا پڑا۔ وہ 93 سال کی عمر میں انتخابات کے ذریعے پھر وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں اور اپنے کم ظرف جانشینوں کی ’’دھلائی‘‘ کررہے ہیں۔
ہم نے ڈاکٹر مہاتیر محمد کا ذکر تفصیل سے اس لیے کیا ہے کہ عمران خان بھی مہاتیر محمد کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ خان صاحب کی ذاتی دعوت پر مہاتیر پاکستان بھی آچکے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت جس سنگین اقتصادی صورتِ حال کا سامنا ہے بعینہ اسی صورت حال سے ملائیشیا کو بھی سابقہ پیش آیا تھا لیکن مہاتیر نے آئی ایم ایف کے جال میں پھنسنے کے بجائے پوری خود اعتمادی کے ساتھ حالات کا سامنا کیا اور اپنے ملک کو اقتصادی گرداب سے نکال لیا۔ عمران خان مہاتیر کے اس کارنامے سے بخوبی واقف ہیں، وہ چاہتے تو عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد مہاتیر محمد سے صلاح مشورہ کرسکتے تھے اور ان کے تجربے سے فائدہ اُٹھا سکتے تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر اعتماد کی کمی ہے اور ان میں وہ حوصلہ نہیں ہے جو ایک لیڈر میں ہونا چاہیے۔ ان کی اہلیہ خاتون اوّل محترمہ بشریٰ بی بی انہیں ترکی کے صدر طیب اردوان کے مماثل لیڈر قرار دے رہی ہیں، اردوان کو بھی اس وقت ترکی میں سنگین اقتصادی صورتِ حال کا سامنا ہے، امریکا نے ان کا محاصرہ کر رکھا ہے، آئی ایم ایف پھیرے لگا رہا ہے کہ جتنا قرضہ چاہیے ہم دینے کو تیار ہیں لیکن اردوان نے صاف انکار کردیا ہے، کسی زمانے میں ترکی بھی آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلاتا رہتا تھا اب اردوان کہتے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف کا کھاتا بند کردیا ہے دوبارہ نہیں کھولیں گے۔ البتہ پاکستان کے ’’اردوان‘‘ نے آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلادیے ہیں وہ قرضہ حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی ہر شرط قبول کرنے کو تیار ہیں، آئی ایم ایف کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ پاکستان سی پیک پر نظرثانی کرے گا اور چین سے حاصل کردہ تمام قرضوں اور معاہدوں کی تفصیل اسے فراہم کرے گا۔ واضح رہے کہ سی پیک امریکا کی نظروں میں بُری طرح کھٹک رہا ہے۔ چناں چہ پاکستان میں سی پیک پر نظرثانی کی باتیں شروع ہوگئی ہیں، عمران خان کا دعویٰ تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کرنے کو ترجیح دیں گے، خودکشی تو خیر انہوں نے نہیں کی اور کرنی بھی نہیں چاہیے۔ البتہ گردن آئی ایم ایف کے شکنجے میں دے دی ہے کہ وہ جس طرح چاہے اس کی شہ رگ کاٹ دے۔
باخبر اصحاب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکومتیں تو تبدیل ہوتی ہیں لیکن عالمی استعمار کا ایجنڈا پاکستان کے خلاف کبھی تبدیل نہیں ہوتا وہ ہر نئی حکومت پر اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے دباؤ ڈالتا ہے۔ عمران خان کی تازہ دم حکومت آئی ہے تو اس پر بھی امریکا نے نہایت آسانی سے آئی ایم ایف کی کاٹھی ڈال دی ہے۔ اب پاکستان میں وہی کچھ ہوگا جو آئی ایم ایف اور بالواسطہ طور پر امریکا چاہے گا۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ایک بظاہر مفلوک الحال ملک ہے جو بچت، کفایت شعاری، خود انحصاری، درست اقتصادی اصلاحات اور سخت انتظامی اقدامات کے ذریعے پھر اپنی عظمتِ رفتہ بحال کرسکتا ہے لیکن عمران خان نے آئی ایم ایف کے گماشتوں کے حصار میں آکر اپنی منزل خود کھوٹی کرلی ہے۔ اللہ خیر کرے۔