فعال پولیس کے باوجود شہریوں پر پابندیوں کی تجویز!

254

 

 

بہت عرصے بعد کراچی کے شہری خلاف قانون کارروائیوں پر پولیس کو غیر معمولی سرگرم دیکھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سٹی چیف پولیس آفیسر (سی سی پی او) کراچی ڈاکٹر امیر احمد شیخ کے سخت اقدامات و احکامات ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ اداروں خصوصاً پولیس کی بہتری اعلیٰ افسران کے اپنے مثبت کردار کے بغیر ممکن نہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امیر شیخ قدرے ایماندار، دیانتدار اور انسان دوست ہونے کے ساتھ غیر معمولی محنتی اور سخت پولیس آفیسر ہیں۔ وہ قانون کی بالادستی خصوصاً پولیس فورس کے اندر برائی ختم کرنے اور پولیس کے نظام کو ’’پیپلز فرینڈلی‘‘ بنانے کے لیے جو کچھ کررہے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ تھانوں کو فوری طور پر کسی بھی واردات کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینا ان کا بڑا قدم ہے۔ اس سے قبل فوری مقدمہ درج کرنے کے بارے میں ماضی کے کسی پولیس چیف نے اس قدر واضح حکم جاری کیا اور نہ ہی اس طرح عمل درآمد کرایا تھا۔ ان دنوں ایف آئی آر درج نہ کرنے پر متعلقہ پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف جس طرح کی کارروائی کی جارہی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی کیوں کہ تھانوں میں مقدمات کے اندراج ہی سے پولیس کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ خصوصاً ڈکیتی، رہزنی اور چوری کے واقعات سے متعلقہ پولیس اسٹیشن کے عملے کا چوکنا رہنے کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اسی طرح عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والے واقعات پر فوری ایکشن نہ لیے جانے سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پولیس ان واقعات کے خدشات سے بھی لاعلم تھی۔ ایف آئی آر کی تعداد بڑھنے سے پولیس حکام علاقہ ایس ایچ اوز کی کارکردگی کو باآسانی جانچ سکتے ہیں۔
اے آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ کا تھانوں کا اچانک سادہ لباس اور بغیر پروٹوکول کے صبح و شام بلکہ مختلف اوقات میں دورہ کرنا بھی بہترین اقدام قرار دیا جارہاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پولیس کا عام آدمی کے ساتھ رویہ عمومی طور پر غیر مناسب ہوتا ہے اس لیے لوگ پولیس کی تعریف کرنا تک نہیں چاہتے۔ (ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ میری ڈاکٹر امیر شیخ کی تعریفی تحریر پر بھی شک کا اظہار کردیں)۔ متعدد افراد پولیس کے نامناسب انداز میں گفتگو ہی سے گھبرا جاتے ہیں جو پولیس اور عوام میں دوستی کے بجائے نفرت کا باعث بنتا ہے۔ سی سی پی او کے حکم کے تحت روڈ ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر احکامات خصوصاً موٹرسائیکل سواروں کو قانون پر عمل درآمد کے لیے کیے جانے والے اقدامات بھی ناگزیر تھے۔ موٹرسائیکل کے لیے سڑکوں کے ’’سلو ٹریک‘‘ کو مخصوص کرنے کا فیصلہ بھی بہت اچھا ہے یہ فیصلہ بہت پہلے ہی ہوجانا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے ساتھ دیگر گاڑیوں پر سلو ٹریک کو چلانے کی پابندی عائد کی جانی چاہیے۔
حکومت اور پولیس حکام کو چاہیے کہ کراچی کا موازنہ دیگر شہروں سے نہ کریں بلکہ یہاں خصوصی اقدامات کریں چوں کہ کراچی میں اس کی آبادی کے تناسب سے پبلک ٹرانسپورٹ موجود نہیں ہے اس لیے طالب علموں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ 18 سال کی عمر نہ ہونے کے باوجود موٹر سائیکل پر سفر کرکے کم وقت میں کالج اور کوچنگ سینٹرز پہنچ سکیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ موٹر سائیکل لائسنس کے لیے طالب علموں کی عمر کی حد خصوصی طور پر 17 سال مقرر کی جائے اس مقصد کے لیے طالب علموں کے پاس گورنمنٹ کالج کا شناختی کارڈ لازمی قرار دیا جائے یا صرف گورنمنٹ کالج یا یونیورسٹی کے کارڈز پر ہی انہیں موٹرسائیکل چلانے کی اجازت دی جائے۔
مندرجہ بالا باتوں کے ساتھ ساتھ یہاں میں پولیس چیف کراچی کی جانب سے لکھے جانے والے اس سفارشی خط کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جن میں انہوں نے حکام سے سفارش کی ہے کہ رات بارہ بجے کے بعد شادی ہالوں اور شادی وغیرہ میں تقریبات کو جاری رکھنے پر پابندی عائد کی جائے۔ اس خط میں ڈاکٹر امیر شیخ کا کہنا تھا کہ رات گئے تک تقریبات جاری رہنے سے ان تقریبات میں شرکت کرنے والے لوگوں خاص طور پر خواتین کے ساتھ ڈاکوؤں اور رہزنوں کی لوٹ مار کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ پولیس آفیسر ڈاکٹر امیر کی اس بات سے اتفاق بھی کیا جائے تو اس امر کی کون یقین دہانی کرائے گا کہ بارہ بجے سے پہلے اس طرح کے واقعات نہیں ہوسکیں گے اور شہری ایسی وارداتوں سے بچ سکیں گے؟ کراچی انٹرنیشنل سٹی ہے یہاں کی آبادی کسی طور پر ڈھائی کروڑ سے کم نہیں ہے پھر جب ہم اسے روشنیوں کا شہر کہتے ہیں اور یہاں کی رونقیں بحال ہونے کی بات کرتے ہیں تو یہاں شادی کی تقریبات کے لیے بنکوئٹ ہالوں وغیرہ پر اس طرح کی پابندیاں عائد کرنا مناسب نہیں ہوگی۔ پولیس کا بنیادی کام لوگوں کا تحفظ کرنا ہے اور یہ کام 24 گھنٹے کا ہے نہ کہ 12 اور 14 گھنٹوں کا۔ پولیس حکام کو چاہیے کہ رات کو شادی ہالوں، بنکوئٹ کے ساتھ بڑے خریداری کے مراکز پر پولیس کے خصوصی انتظامات کیے جائیں۔ صوبائی حکام کو آبادی کے حساب سے فورس میں اضافہ کرنا چاہیے۔ آخری مردم شماری کے نتائج کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ ظاہر کی گئی ہے اس حوالے سے موجودہ پولیس تھانوں اور پولیس فورس کی تعداد کسی طور پر کم نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ پولیس فورس میں گزشتہ برسوں میں جو اضافہ کیا گیا وہ کراچی کی آبادی کے انٹرنیشنل اعداد و شمار کے مطابق کیا جاتا رہا یہ اعداد شمار کم ازکم ایک کروڑ 49 لاکھ سے زیادہ تھے۔ ایسی صورت میں کیا رات کو ڈیوٹیاں ادا کرنے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد کم ہوجاتی ہے یا کم پڑ جاتی ہے کہ رات کو ڈکیتی کی وارداتوں کے ملزمان کو پکڑنا مشکل ہوجاتا ہے؟۔
خیال ہے کہ پولیس کی طرف سے رات میں وارداتوں کے خدشات بڑھ جانے کا اظہار بلاجواز ہے یا پھر اپنے فرائض سے منہ موڑنے کا بہانہ ہے۔ رات کے اوقات میں فورس کا بھر پور طریقے سے ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ڈاکوؤں کی سرگرمیاں چاہے کہیں بھی ہوں روکا نہ جاسکے۔ ویسے بھی دن کے اوقات میں بھی پولیس کتنے واقعات کے ملزمان کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرتی ہے؟ امید ہے کہ ڈاکٹر امیر شیخ پولیس کے اندر پائی جانے والی بیماریوں کے سدباب کے لیے اپنی ’’ڈاکٹری‘‘ سے فائدہ حاصل کرسکیں گے اور فورس کو دستیاب پولیس کے حساب سے استعمال کرنے پر بھی توجہ دیں گے۔ اس مقصد کے لیے انہیں گھوسٹ پولیس اہلکاروں کا پتا لگانا پڑے گا۔ کیوں کہ یہ بات عام ہے کہ متعدد پولیس اہلکار نصف تنخواہیں بطور رشوت دے کر اپنے آپ کو ڈیوٹیوں سے مستثنیٰ قرار دلا لیتے ہیں۔