زبوں حال قومی معیشت کا تماشا

302

 

 

دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان کی معیشت اس وقت دنیا بھر میں تماشا بنی ہوئی ہے۔ معیشت کی خرابی کے چرچے صرف عالمی اقتصادی اداروں کی راہداریوں تک ہی زبان زد خاص وعام ہی نہیں بیجنگ اور واشنگٹن تک بھی ہیں گوکہ اس وقت معاشی بحران کئی ملکوں کے دہلیز پار کر چکا ہے اور ڈالر کے مقابلے میں ان کی کرنسی کی وقعت مسلسل کم ہونے کے ساتھ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ بھارت بھی ان ملکوں میں شامل ہے۔ پاکستان کا مرض ان ملکوں سے خاصا مختلف ہے کیوں کہ یہ ایک پرانا اور لادوا مرض ہے۔ یہاں آمدن اور اخراجات اور درآمدات وبرآمدت کا توازن باقی نہیں رہا۔ جس کی وجہ سے معاشی خسارے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں نے اس بحران کو حل کرنے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی کے بجائے وقت گزاری اور ایڈہاک ازم کی پالیسی اپنائے رکھی جس کی وجہ سے بحران اندر ہی اندر پلتا اور بڑھتا چلا گیا اور اب یہ ایک خوفناک مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت صلیب پر جھولتی ہوئی اس معیشت کو کیسے بحال کرتی ہے قوم کو اس کا انتظار ہے۔
حکومت نے ہر ممکن حد تک آئی ایم ایف کے پاس جانے سے گریز کی راہیں تلاش کیں مگر فوری طور پر کوئی صورت نہ بن سکی۔ چار وناچار وزیر خزانہ اسد عمر ایک وفد لے کر آئی ایم ایف کے سربراہ کے ساتھ بات چیت کرنے پہنچے۔ اب آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آکر قرض کی شرائط طے کرے گا۔ یوں لگتا ہے کہ امریکا بھی پاکستان کے موجودہ معاشی بحران پر گہری نظر رکھے ہوئے جس کا ثبوت امریکی وزرات خارجہ کی ترجمان ہیڈر نوئرٹ کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کو چین سے لیے گئے قرضوں کی واپسی کے لیے آئی ایم ایف کے پاس بیل آؤٹ پیکیج کے لیے جانا پڑا ہے۔ حکومتوں کا خیال ہوتا کہ قرض کی واپسی آسان ہوگی مگر اب یہ مشکل ہو گیا ہے ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کیس کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے امریکا نے کہا تھا کہ چینی قرض کی واپسی کے لیے آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو قرض کی مخالفت کریں گے۔ دوسری طرف ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورت حال دوسال تک نازک رہے گی۔ پاکستان کو ترقی کے لیے خسارے کوکم کرنا ہوگا۔ یہ صورت حال ملک میں تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ایک دلدل کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو قوم کو تسلی دلارہے ہیں کہ مشکل وقت بہت تھوڑا اور جلد ہی کٹ جائے گا مگر حالات کی چکی تلے پستے ہوئے عوام کو صبر کی تلقین کرنے سے معاملہ حل نہیں ہوسکتا۔ موجودہ معاشی بحران کو حکومت حل نہ کرسکی تو کوئی دوسرا بھی اس پر قابو نہ پاسکے گا اس لیے معاشرے کے تمام طبقات کو مل جل کر اس بحران سے نکلنے کی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔
وزیر اعظم عمران خان نے قرض کی ایک اور قسط کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف کے سربراہ سے ملاقات کے لیے روانگی سے پہلے کہا تھا کہ ملک جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے اس پر قابو پانا آسان نہیں یہ ایک مشکل چیلنج ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماہرین معاشیات اور دوست ممالک کے ساتھ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ واپسی پر اب وزیر خزانہ یہ بتا رہے ہیں کہ ابھی تو آئی ایم ایف سے مذاکرات کا آغاز ہی نہیں ہوا اور یہ کہ اگر شرائط کڑی ہوئیں تو قرض نہیں لیں گے۔ وزیر خزانہ کا یہ کہنا چنداں غلط نہیں کہ ملک ایک خوفناک معاشی بحران کے بھنور میں گھر چکا ہے۔ قرض در قرض اور سود در سود نے ملک کی معاشی کمر جھکا کر رکھ دی ہے۔ ہر حکومت کو خالی خزانہ اور ڈوبتی اور ڈولتی ہوئی معیشت ملتی رہی۔ ہر حکومت نے اس معیشت کو ادھار اور قرض کی آکسیجن فراہم کرکے دن گزارنے کی پالیسی اپنائے رکھی۔ قرض کے پیسوں سے عیاشیاں اور اللے تللے چلتے رہے اور یوں سال بعد قرض کی ایک اور قسط کے لیے کشکول پھیلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا۔ حکومت جیسے تیسے قائم تو ہوئی مگر مسائل کے فوری حل کا کوئی فارمولہ اور نسخہ ہاتھ نہ آسکا۔ خود حکومت کو اس صورت حال کا بخوبی اندازہ تھا اسی لیے حکومت نے ان چند ماہ کے دوران ایک لمحے کو بھی آئی ایم ایف سے قرض لینے کے آپشن کو مسترد نہیں کیا۔ وزیر خزانہ اسد عمر بار بار کہتے رہے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا بہترین آپشن ہے لیکن اگر ناگزیر ہوا تو اس آپشن کو استعمال کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے حکومت نے سعودی عرب اور چین سے رابطہ کیا مگر یوں لگتا ہے دونوں ملکوں نے فوری امداد کی ٹھوس یقین دہانی نہیں کرائی۔ دونوں ملکوں نے طویل المیعاد منصوبوں کے قیام میں مددکا وعدہ تو کیا مگر فوری قرض کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔
آئی ایم ایف سے قرض لینا کوئی نئی بات نہیں۔ ہم بطور قوم اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ قرض کی اس قسط کو آسان شرائط پر حاصل کرنا اور پھر اس کا کچھ اس انداز سے درست استعمال کہ اس سے ایک طرف عام آدمی پر بوجھ نہ پڑے اور یہ کہ ملک میں خود انحصار ی کی مضبوط بنیاد پڑے ضروری ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی قرض کی اس پہلی قسط کو اگر ان دو خطوط پر رہتے ہوئے استعمال کرتی ہے تو پھر اس کا نقصان نہیں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اگر آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے تحت قرض کی یہ قسط بھی غریب عوام کی کھال ادھیڑنے کا باعث بنتی ہے اور یہ قسط بھی ہمارا نشہ بڑھانے اور خوئے کشکول نمائی کو گہرا کرنے کا باعث بنتی ہے تو پھر یوں سمجھ لینا چاہیے کہ معیشت کے شعبے میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ اسد عمر جیسے وزیر خزانہ ایک امتحان گاہ میں کھڑے ہیں۔ ان کے دعووں اور صلاحیتوں کا امتحان شروع ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینا کوئی کمال نہیں ماضی کی ہر حکومت نے یہی کیا ہے مگر اس قرض کا استعمال اصل معاملہ اور امتحان ہے۔