اس طرح کے کاموں میں!

240

وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بڑے طمطراق کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ جب تک عمران خان وزیراعظم ہیں، نواز شریف جیل سے باہر نہیں آسکتے، ای سی ایل میں شریف فیملی کا نام شامل کیا گیا تو ہم نے انہی کالموں میں کہا تھاکہ اڈیالہ جیل کے دروازے کھلنے والے ہیں۔ ڈیل اور ڈھیل کا بڑا چرچا ہورہا ہے مگر یہ ڈیل میاں نواز شریف اور مریم نواز نے اپنے ساتھ کی ہے کیوں کہ جب ضمانت پر ہیں، بیان بازی سے اجتناب برتنا ہی بہتر ہے، بہت سود مند ہے یوں بھی میاں نواز شریف سود کے معاملات میں جو مہارت رکھتے ہیں سبھی اس کے معترف ہیں اور جہاں تک اڈیالہ جیل کا تعلق تو اس حوالے سے ہمارے ذہن میں بینائی سے محروم بہاولپور کے ممتاز شاعر ظہور آثم کا سراپا لہرانے لگا ہے ایک ناقابل تحریر واقعے سے متاثر ہو کر شعیب بن عزیز کے ایک زبان زد عام شعر
کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
اس طرح کی جگہ ’’اُسترا‘‘ لگا کر واقعہ کی بھرپور تشریح کی تھی۔ اس پیروڈی پر بہت دنوں تک ظہور آثم پر داد تحسین ڈونگرے برستے رہے۔ فواد چودھری کا کہنا ہے کہ وہ اپنے موقف پر آج بھی قائم ہیں۔ لفظ دائم کو ہم نے حذف کردیا ہے کہ دوام تو صرف حاکم حقیقی کو حاصل ہے۔ چودھری صاحب اور دیگر احباب جو کام کررہے ہیں وہ کسی بھی وقت عمران خان کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ خان صاحب منتخب وزیراعظم ہیں، شہنشاہ معظم یا آمر نہیں جو عدالتوں کو اپنے اشارۂ ابرو پر چلائیں یا نظام عدل کو بغل بچہ بنالیں۔ خدا جانے! اس طرح کی باتیں کرکے ان کے نادان دوست کیا چاہتے ہیں؟۔ آثار و قرائن تو یہ بتارہے ہیں کہ عمران خان کے نادان دوست اپوزیشن کا کام آسان کررہے ہیں، سہولت فراہم کرکے ’’سہولت کاری‘‘ کررہے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مال و زر کی چوری سے بڑا جرم ولدیت کی چوری ہے، ہم اپنے اطراف میں نظریں دوڑائیں تو کئی ایسے نام نہاد چودھری، ملک، خان، شاہ اور قریشی دکھائی دیں گے جو ولدیت کے چور ہیں مگر اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی عزت نفس کو مجروح نہ کریں یہ اخلاقی جرم ہے، اخلاقی پستی کی انتہا ہے، اخلاقیات کو دل سے لگایا جاتا ہے اس کا جنازہ نہیں نکالا جاتا۔ مہذب قومیں تہذیب کا دامن تھامے رہتی ہیں کہ یہی انسانیت کا تقاضا ہے۔ انسانیت کی سطح سے گرنا کوئی قابل تحسین عمل نہیں۔ اگر چور کو چور کہنا ضروری ہے تو پھر ولدیت کے چوروں کو بھی چور کہنا لازم قرار پائے گا۔ جمہوریت کی اخلاقیات کا بھی یہی تقاضا ہے کہ تحمل اور برداشت کا وتیرا اختیار کیا جائے۔ درگزر اور عفو کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ شاید ہماری سیاسی بے ہودگیاں دیکھ کر امریکا نے یہ پیغام دیا ہے کہ ماضی کو بھول کر مستقبل پر توجہ دی جائے۔
سیاست دانوں کو چور اور لٹیرا کہہ کر اپنے ووٹ کی توہین قابل تحسین فعل نہیں۔ حکمرانوں کو بددیانت اور خائن کہہ کر ہم خود کو بددیانت اور خائن تسلیم کرتے ہیں، کرپٹ سیاست دانوں سے نجات حاصل کرنا ہے تو تسلیم و رضا کی اس روش کو ترک کرنا پڑے گا، ووٹ ایمان دار اور مہذب امیدواروں کو دیا جائے تو قومی خزانہ محفوظ رہے گا، ملک کی خود مختاری بھی برقرار رہے گی مگر یہ کام عوام کے بس کا نہیں کیوں کہ اکثریت جاگیرداروں، زمینداروں اور صنعت کاروں کے بس میں ہے، یہ فریضہ صرف عدلیہ سرانجام دے سکتی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی ذمے داری سے بھی گریزاں ہے۔ اس کے سر پر مقدمات کا اتنا انبار ہے کہ وہ سراٹھانے کی بھی سکت نہیں رکھتی، اب یہ ایک الگ موضوع ہے کہ عدالتیں مقدمات کا فیصلہ کرنے کے بجائے کبھی پیشی در پیشی کا کھیل کھیل رہی ہیں کبھی پیشی کینسل کرنے کا شغل فرما رہی ہیں، کبھی لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا رہی ہیں اور اگر اس کھیل سے اُکتا جائیں تو ڈسپوز آف کھیلنے لگتی ہیں۔ عدالتوں کے دھکے اور افلاس کی لعنت ہمارا مقسوم بن گئی۔ ہم ایک مدت سے مقتدر قوتوں سے یہ عرض کررہے ہیں کہ ایسے افراد پر مشتمل قومی حکومت تشکیل دی جائے جو ملک و قوم کی خدمت رضا کارانہ طور پر سرانجام دے، تنخواہ، سہولتیں اور مراعات کے خواہش مند افراد قوم و ملک کی خدمات نہیں کرسکتے کیوں کہ بے مہار اختیارات اور اقتدار کی کوکھ ہی سے کرپشن جنم لیتی ہے۔ اقتدار اور اختیار کرپشن کا ایسا جال ہے جس میں نہ چاہتے ہوئے بھی آدمی پھنس جاتا ہے۔ سیاسی دلدل ایک ایسی مقناطیس ہے جو آدمی کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔