دھوکا

235

ایک قصے سے آغاز کرتے ہیں۔
ایک شخص کی ملاقات شیطان سے ہوئی۔ دیکھا اس کے پاس چھوٹے بڑے ان گنت جال ہیں۔ اس نے شیطان سے پوچھا ’’میرے لیے کون ساجال ہے؟‘‘ شیطان نے جواب دیا ’’تمہارے لیے جال کی ضرورت نہیں تمہیں تو میں بغیر جال ہی پھانس سکتا ہوں۔‘‘ مدت گزری بات آئی گئی ہوگئی۔ ایک مرتبہ وہ شخص ندی کنارے پہنچا۔ دیکھا کشتی جا چکی۔ اگلے دن سے پہلے کشتی کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ اس نے تیر کر ندی پار کرنے کا ارادہ کیا۔ ابھی وہ ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک کمزور لاغر سی عورت بھی ندی کنارے آپہنچی۔ عورت نے گڑ گڑا کر اس شخص سے درخواست کی کہ مجھے ندیا پار پہنچادے میرے بچے میرا انتظار کررہے ہیں۔ اس شخص نے کہا میں تمہیں کیسے ساتھ لے جاؤں۔ عورت نے روتے ہوئے التجا کی کہ مجھے کندھوں پر بٹھا لو تمہیں زندگی کی ہر سانس دعائیں دوں گی۔ اس شخص نے عورت کی باتوں میں آکر اسے اپنے کندھوں پر بٹھا لیا اور دریا میں اتر گیا۔ جب دریا کے بیچ میں پہنچا تو عورت نے زور سے اس کے بال کھینچتے ہوئے کہا ’’گدھے تیزی سے دریا پارکر۔‘‘ اس شخص نے حیرت سے عورت کی طرف دیکھا اس کے تیورہی اور تھے۔ اس نے عورت سے پوچھا ’’تو کون ہے‘‘ اس نے کہا ’’میں وہی ہوں جس نے تجھے بغیر جال قابو کرنے کا کہا تھا۔ اب دیکھ میں نے تجھے کس طرح بغیر جال قابو کیا ہے۔ تجھے نظر نہیں آرہا تھا کہ میں غیر محرم ہوں اور تونے مجھے کندھوں پر اٹھا لیا۔‘‘ ہم بھی آئی ایم ایف کے سودی قرضے کو کندھوں پر بٹھا کر مشکلات کے دریا کے پار اترنا چاہتے ہیں۔ یہ خیال کیے بغیر کہ سود اللہ اور اس کے رسول ؐ سے جنگ کے مترادف ہے۔
آئی ایم ایف کا قرضہ وہ جال ہے جس میں حکومت بھی جیت جاتی ہے اور آئی ایم ایف بھی لیکن ملک اور عوام ہار جاتے ہیں۔ قرضوں کے گرد گھومتی سودی معیشت وہ جال ہے جس نے دنیا کو بے حال بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جس میں نہ ترقی کی کوئی حقیقت ہے نہ معاشی استحکام کی۔ کاغذی جعلی کرنسی، سودی بینکاری اور قرضوں کا جال وہ گورکھ دھندا ہے جس میں کچھ بھی حقیقی اور منصفانہ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک یہ دعوے کرتے ہیں کہ وہ دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کے لیے کام کررہے ہیں۔ واشنگٹن میں قائم یہ ادارے جنہیں Washington Consensus کہا جاتا ہے نیو لبرل ازم کی آئیڈیالوجی پر کاربند ہیں۔ یہ ادارے ترقی پزیر ممالک کو سودی قرضے دے کران پر اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پالیسز کو نافذ کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں تاکہ ان کے قرضوں کی واپسی ممکن ہوسکے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قرض لینے والے ممالک کو ترقیاتی اخراجات کم کرنے پڑتے ہیں ساتھ ہی ٹیکسوں، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف قرض لینے والے ملک پر یہ زور دیتا ہے کہ وہ اپنے عوام کے معیار زندگی کو کم سے کم تر سطح پر لائے۔ اس نسخہ کیمیا پر عمل کرتے ہوئے عوام کو دی جانے والی زر تلافی اور ان کی بہبود پر خرچ کی جانے والی رقم کم اوربل واسطہ ٹیکسوں اور بجلی وگیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے جس سے مہنگائی کا وہ طوفان اٹھتا ہے کہ زندگی کا ہر شعبہ اس کی زد میں آجاتا ہے۔
کرنسی کی قدر میں کمی اور شرح سود میں اضافہ آئی ایم ایف کی کلیدی پالیسیاں ہیں جس کے بعد قرض لینے والے ممالک معاشی تنزلی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وقتی طور پر ادائیگیوں کے توازن بیلنس آف پیمنٹ کے حوالے سے استحکام پیدا ہوجاتا ہے لیکن اس استحکام کی قیمت مقامی پیداواری صلاحیت میں کمی، بے روزگاری میں اضافہ اور کل ملکی پیداوار میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ کرنسی کی قدر میں کمی کے ذریعے آئی ایم ایف شرح تبادلہ کو اپنے مفاد میں رکھتا ہے جس کے بعد ان ممالک کے وسائل مغرب کے لیے مزید سستے ہوجاتے ہیں۔ ان قرضوں کے نتیجے میں نہ ملک میں کسی بھی قسم کی ترقی ہوتی ہے اور نہ استحکام آتا ہے بلکہ ممالک غربت اور عدم استحکام کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ان قرضوں کے سیاسی پہلو بھی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکا بھارت سے بڑھ کر پاکستان کا دشمن ہے۔ اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن چوں کہ آئی ایم ایف سے قرض کا حصول امریکی آشیر باد سے مشروط ہے اس لیے خطے میں امریکی مفادات کے حصول کے لیے ہمیں امریکی خارجہ پالیسی کے اہداف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے لازمی کوشاں ہونا ہوگا۔ ہمیں خطے میں امریکا کے مددگار کا کردار مسلسل اور مستقل جاری رکھنا ہوگا خواہ اس میں پاکستان کے لیے تباہی اور بربادی کے کتنے ہی سامان پو شیدہ ہوں۔
عمران حکومت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے پچھلے ہفتے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ’’موجودہ حکومت کے لیے چیلنج یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر چند سال کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سلسلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔‘‘ یہ دعویٰ نیا نہیں ہے۔ ماضی میں بھی حکومتوں نے آئی ایم ایف کے پاس قرض کے لیے جاتے ہوئے متعدد مرتبہ اس قسم کے دعوے کیے تھے۔ لیکن کوئی بھی حکومت اس دعوے کو پورا نہ کرسکی۔ پورا کرنا ممکن بھی نہیں ہے۔ آئی ایم ایف قرضے اس لیے نہیں دیتی کہ کمزور ممالک اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ معاونت کے ذریعے وہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ متعلقہ ممالک کے قرضوں پر انحصار میں اضافہ ہو۔
سودی معاشی نظام کا حصہ رہتے ہوئے مدینے جیسی ریاست کے دعوے عوام سے سنگین مذاق کے مترادف ہیں۔ شرح سود میں تخفیف یا اضافہ، پرائیو ٹائزیشن، نت نئی سودی اسکیموں کا اجرا، بانڈز کی نئی نئی شکلیں اور زور وشور سے کرنسی نوٹوں کی چھپائی اس نظام میں معاشی فیصلے ان ہی نکات کے گرد گردش کرتے ہیں حکومت خواہ کسی کی بھی ہو۔ اس نظام میں تمام تر معاشی تگ ودو اور کا میابی کا حاصل قرضوں کی بروقت ادائیگی ہے۔ ایسے میں ریاست میں اسلامی عدل کے خواب دکھانا اور مدینے جیسی ریاست کے دعوے کرنا عوام سے ایک سنگین مذاق ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ؐ سے جنگ کرکے آپ معاشی تو کیا کسی بھی محاذ پر کا میابی حاصل نہیں کرسکتے۔