کراچی کے ساتھ مذاق مت کرو

332

تبدیلی کی بازگشت میں بلدیہ عظمٰی کے محکمہ انسداد تجاوزات کے نظام کو ایسا تبدیل کیا گیا کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ تبدیلی مثبت ہے یا منفی؟۔ حیرت اس بات پر ہے کہ محکمہ انسداد تجاوزات پر ہر قسم کے چالان کا اجراء نہ کرنے کی پابندی عائد کردی گئی۔ یہ حکم اس وقت صادر کیا گیا جب ’’معصوم‘‘ میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمان نے ہدایت کی تھی کہ ہر چالان کے ساتھ میونسپل یوٹیلیٹی چارجز ٹیکس کا چالان بھی دیا جائے۔ خیر اینٹی انکروچمنٹ ڈپارٹمنٹ ہر تازہ پابندی عائد کرتے ہوئے میئر وسیم اختر نے واضح کیا کہ اس پابندی کے بعد اینٹی انکروچمنٹ ڈپارٹمنٹ کے ایم سی کی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہوگا۔ میئر وسیم اختر نے یہ فیصلہ 11 اکتوبر کو اپنی صدارت میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا۔ اس فیصلے سے کے ایم سی کو کم و بیش 6 کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔ جب کہ اس سال محکمہ انسداد تجاوزات کی کوشش تھی کہ دس کروڑ روپے آمدنی حاصل کرسکے۔ یہ آمدنی تجاوزات قائم کرنے والوں سے جرمانہ وصول کرنے کے ساتھ عارضی تعمیراتی سامان رکھنے کی اجازت دینے اور نائٹ سیٹنگ ہوٹلوں کی میز و کرسیاں رکھنے کے عوض جاری کیے جانے والے اجازت ناموں کے چالان کے ذریعے وصول کیے جانے تھے۔ مذکورہ محکمہ نے رواں مالی سال کے چار ماہ میں ان مدات میں جرمانوں اور چالان چارجز سے چار کروڑ 30 لاکھ روپے وصول کیے تھے۔ جو گزشتہ کسی بھی سال کی سہہ ماہی کی ریکارڈ آمدنی ہے۔ تاہم اب یہ آمدنی نہیں ہوگی۔ حیرت اس امر پر بھی ہے کہ بلدیہ عظمٰی کے چیف ایگزیکٹو افسر و میٹروپولیٹن کمشنر اس فیصلے پر کسی قسم کا اعتراض کرنے کے بجائے روایتی ’’نوکر شاہی‘‘ کی طرح خاموش رہے۔ حالاں کہ حکومت سندھ نے انہیں غیر مناسب فیصلوں کی روک تھام کا مکمل اختیار بھی دیا ہوا ہے۔ میئر وسیم اختر کے اس تاریخی فیصلے کی وجہ سے اب کے ایم سی کی کم ازکم چھ کروڑ روپے آمدنی بند ہوچکی ہے۔
بلدیہ عظمیٰ چوں کہ پہلے ہی مالی بحران کا شکار ہے اس لیے ایک ایسے وقت میں جب اس کو اپنی آمدنی بڑھانے کی ضرورت تھی آمدنی کے ایک ذریعے کو ختم کر دینے کا فیصلہ حیرت کا باعث ہے۔ اس فیصلے سے کے ایم سی کو نقصان کے سوا کچھ اور حاصل ہونے کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔ سوال یہ کیا گیا کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ جواب ملا کہ چوں کہ واٹر کمیشن نے سڑکوں اور گلیوں سے تجاوزات کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا تاکہ کے ایم سی کے عملے پر یہ الزام عائد نہیں کیا جاسکے کہ اس ادارے کا عملہ فیس اور چالان کرکے تجاوزات کی اجازت دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا محکمہ انسداد تجاوزات بغیر چالان اور جرمانہ وصول کیے کسی کو بھی ایک گھنٹے کے لیے بھی تجاوزات قائم کرنے یا پتھارے اور ٹھیلے لگانے کی اجازت نہیں دے گا؟ اگر ایسا ہوجائے تو یقیناًیہ ایک تاریخی کام ہوگا لیکن اس کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیوں کہ بلدیہ عظمیٰ ہی نہیں بلکہ ضلعی بلدیاتی ادارے جن کا لینڈ کنٹرول اور تجاوزات ہٹانے سے تعلق بھی نہیں وہ بھی تجاوزات قائم کرنے والوں کے خلاف ’’دکھاوے‘‘ کی کارروائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چوں کہ شہر کی تمام بڑی سڑکوں کی دیکھ بھال و مرمت کے ساتھ بیش تر علاقوں کی اراضی کی دیکھ بھال کے ایم سی کی ذمے داریوں میں شامل ہے اس لیے تجاوزات کو ہٹانے کا ذمے دار بھی کے ایم سی ہی ہے۔ مگر اندرون علاقہ اور تمام ذیلی سڑکوں کی تعمیر مرمت اور دیکھ بھال کے امور ایس ایل جی اے 2013 کے تحت ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن اور ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کے پاس ہیں اس لیے وہاں تجاوزات کے امور انجام دینے کی ذمے داری متعلقہ ضلعی بلدیاتی ادارے مبینہ طور پر خلاف قانون انجام دینے لگے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا میئر وسیم اختر ان ضلعی بلدیاتی اداروں سے بھی اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرسکیں گے؟۔
بلدیاتی قوانین کے مطابق کراچی میں تجاوزات ہٹانے کا ذمے دار ادارہ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) ہے۔ چوں کہ نئے بلدیاتی نظام میں ضلعی بلدیاتی اداروں کی بھی کنٹرولنگ اتھارٹی سندھ حکومت ہے اس لیے سندھ حکومت میں موجود محکمہ بلدیات کے افسران خصوصی طور پر اپنی مرضی سے بعض اختیارات ضلعی بلدیاتی اداروں کو تفویض کردیا کرتے ہیں جس کی وجہ سے خصوصی طور پر تجاوزات ہٹانے کے امور متنازع بن چکے ہیں۔ یہ اس لیے بھی ممکن ہورہا ہے کہ صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ملازمین کی حاضریاں چیک کرنے میں مصروف ہیں۔ خیال ہے کہ میئر وسیم اختر چوں کہ ڈی ایم سیز اور کے ایم سی کے امور کے تنازع کو حل کرانے میں ناکام رہے اس لیے انہوں نے اپنی ’’سلطنت‘‘ بلدیہ عظمٰی کے محکمے انسداد تجاوزات کو کسی قسم کا چالان جاری کرنے اور جرمانہ وصول کرنے سے روک دیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ہدایت کی ہے کہ تجاوزات کے خاتمے کے لیے بھر پور کارروائی کی جائے۔ فی الحال تو شاہراہ فیصل سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جارہا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ صدر ایمپریس مارکیٹ سمیت دیگر علاقوں اور سڑکوں کو بھی ان تجاوزات سے پاک کیا جاتا ہے یا نہیں۔ میئر نے اپنے عملے کو یہ بھی حکم دیا کہ جو بھی اشیاء تجاوزات کی شکل میں ہوں انہیں نہ صرف اٹھالیا جائے بلکہ انہیں ضبط بھی کرلیا جائے۔ ان کا حکم ہے کہ ضبط کیے جانے والے ہر طرح کے سامان کو کے ایم سی کسی صورت میں چھوڑے بھی نہیں بلکہ ایسی تمام اشیاء کو خود کے ایم سی نیلام کرے۔ ہوسکتا ہے کہ نیلام سے ہونے والی آمدنی کے ایم سی کی انکم کا بڑا ذریعہ بن جائے لیکن اس سے قبل دیکھنا تو یہ ہے کہ واقعی شہر کو تجاوزات سے پاک کردیا جائے گا یا یہ صرف کسی کو دکھانے کے لیے عارضی ڈرامے بازی ثابت ہوگا؟ یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ کراچی میں تین لاکھ سے زاید افراد کے روزگار کا ذریعہ سڑکوں اور فٹ ہاتھوں پر لگائے جانے والے ٹھیلے اور پتھاررں ہی سے وابستہ ہے۔ انہیں بغیر منصوبہ بندی کے ہٹانے سے یکمشت ہونے والی بیروزگاری کا بوجھ کیا قرضوں سے چور چور ہمارا ملک برداشت کرسکے گا؟
کے ایم سی حکام کو چاہیے کہ جذباتی نوعیت اور دکھاوے کے فیصلے کرنے کے بجائے حاصل اختیارات کے تحت امور انجام دینے کی طرف توجہ دے۔ پارکوں کی حالت بہتر بنائے اور کنکریٹ کی دیواروں پر مشتمل سرکاری اراضی، کھیل کے میدان اور پارکوں سے غیرقانونی قبضے ختم کرائے۔ جو اب بھی بااثر افراد اور بدعنوان افسران کی پشت پناہی کی وجہ سے جوں کے توں ہیں۔ دلچسپ امر یہ کہ کے ڈی اے بھی ایسی غیر قانونی تعمیرات اور قبضوں کے خلاف خاموش تماشائی بن گئی ہے۔ جب کہ کنٹونمنٹ بورڈز ’’بڑی سرکار‘‘ کی پھوں پھاں کی وجہ سے جہاں چاہے غیرقانونی تعمیرات کرانے میں مصروف ہے۔ کراچی کے لوگ اب تو یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’پلیز کراچی کے ساتھ مذاق مت کرو‘‘۔