امریکا کو افغانستان سے نہ جانے کا مشورہ

444

پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکاافغانستان سے نہ جائے۔ یہ ایک طرح کی امریکا سے درخواست ہے کہ ہمیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہ جانا ورنہ امریکی فوج کے نکلتے ہی وہ پاکستان پرچڑھ دوڑیں گے۔ لیکن پاکستان کی مایۂ ناز افواج افغان طالبان سمیت ہر بیرونی خطرے سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ فرمائش پہلی بار نہیں کی گئی بلکہ ماضی میں بھی کہا گیا تھا کہ امریکی فوج ہمارا کام کررہی ہے یعنی جن عناصر سے پاکستان کو خطرہ ہے وہ ان کو مار کر ہماری مدد کررہی ہے۔ دوسری طرف افغان طالبان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان کے ملک پر تسلط جمانے والی غیر ملکی افواج ان کے ملک سے نکلیں گی تو کسی قسم کے مذاکرات ہوسکیں گے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت ان کا مطالبہ بجا ہے۔ اقوام متحدہ نے قابض فوج کے خلاف جدوجہد کا حق دیا ہوا ہے۔ اسی حق کے تحت دوسری جنگ عظیم میں اتحادی افواج نے محوری طاقتوں کے خلاف جنگ لڑی، خاص طور پر جرمنی کے خلاف جس نے فرانس سمیت یورپ کے کئی ممالک پر قبضہ کرلیا تھا۔ کامیابی کے بعد جرمنی کے دو ٹکڑے کردیے گئے اور اس کاساتھ دینے والی طاقتوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگا دی گئیں۔ 1979ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کرلیا تھا تو اس کے خلاف امریکا سمیت کئی ممالک نے محاذ بنایا جس میں پاکستان سب سے آگے تھا۔ اس وقت سوویت یونین سے نبرد آزما افغانوں کو مجاہد اور حریت پسند قرار دیا گیا۔ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر نے ان کا استقبال کیا اور آج وہی افغان دہشت گرد قرار دیے گئے کیوں کہ اب وہ امریکا اور اس کے صلیبی ساتھیوں سے نبرد آزما ہیں ۔ پہلے جو کام خوب تھا اب وہی ناخوب ہے اور پاکستان بھی اس کے حق میں ہے کہ افغانستان پر مسلط استبدادی قوتیں افغانستان سے نہ نکلیں۔ تاہم پاک فوج کے ترجمان نے یہ ٹکڑا بھی لگا دیا ہے کہ امریکا مکمل امن ہونے تک افغانستان ہی میں رہے۔ 40ممالک کی فوج لے کر افغانستان پر قبضے کو 17سال تو ہو چکے ہیں اور امن کا کہیں نام ونشان نہیں ۔ تو کیا ہمارے عسکری ماہرین بتائیں گے کہ امن کی بحالی میں ابھی مزید 17سال لگیں گے یا اس سے زیادہ ؟ یہ بات تو خود امریکا بھی نہیں بتا سکتا اور پاکستان خوشامد کرے یا نہ کرے، امریکا کا کوئی ارادہ افغانستان کو چھوڑنے کا نہیں ہے۔ وہ تو عراق اور شام سے نکلنے پر بھی تیار نہیں جب تک اس کی پسند کا امن اور اس کی منشا کے مطابق جمہوریت نہ آجائے۔ عراق پر حملے کا جواب امریکا آج تک نہیں دے سکا۔ حملہ کرنا تھا اس لیے بین الاقوامی جھوٹ گھڑ لیا کہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور امریکا کے ’’پوڈل‘‘ برطانوی وزیر اعظم نے اس پر مزید ردّا جمایا کہ صدام حسین یہ (WMD) ہتھیار صرف 45سیکنڈ میں استعمال کرسکتے ہیں ۔ افغانستان پر حملے کے لیے نیویارک کے تجارتی مرکز پر طیاروں سے حملے کو جواز بنایا گیا حالاں کہ یہ کوئی راز نہیں کہ نیویارک پر حملے سے پہلے ہی امریکا نے افغانستان پر حملے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ پاکستان نے افغانستان پر روسی تسلط کے خلاف جنگ میں اہم کردارادا کیا لیکن امریکا سے کہا جارہا ہے کہ وہ افغانستان سے نہ جائے۔ کیا یہ طالبان کا خوف ہے یا امریکا سے وابستہ ان مفادات کا خیال جو اب خیال وخواب ہوگئے۔ ایک طرف امریکا سے یہ درخواست کہ ابھی چھوڑ کر نہ جاؤ اور دوسری طرف ترجمان پاک فوج کی طرف سے اس حقیقت کا اعتراف کہ افغانستان کے 70فیصد علاقے پر طالبان کاقبضہ ہے۔ ترجمان نے لندن کی یونیورسٹی سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان کے بغیر خطے اور دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا، پاکستان اورافغانستان کا امن ایک دوسرے سے مشروط ہے۔ یہ درست ہے لیکن ترجمان کے مطابق جب 70فیصد علاقہ طالبان کے پاس ہے تو اصل حکومت اس کی ہوئی نہ کہ امریکا یا کابل میں بیٹھی ہوئی کٹھ پتلی حکومت کی جسے خوف ہے کہ امریکی فوج نکل گئی تو کابل حکومت تین دن بھی نہیں چل سکتی۔ ایسے میں قرین مصلحت کیا یہ نہیں کہ افغانستان کے 70فیصد علاقے پر حکمرانی کرنے والے عناصر کا ساتھ دیا جائے یا ناجائز قابضین اور افغان مسلمانوں کے قاتلوں کا ؟ ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بغیر خطے اور دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ درست ہے لیکن یہ بھی تو بتا دیا ہوتا کہ نہ صرف اس خطے میں بلکہ پوری دنیا میں بدامنی اور دہشت گردی کا اصل ذمے دار امریکا ہے۔ ہماری عسکری طاقت بے فکر رہے، امریکا افغانستان کو چھوڑ کر جانے والا نہیں ۔ اس کا مقصد محض قبضہ نہیں بلکہ پورے خطے پر نظر رکھنے کے لیے اسے ایک ٹھکانے کی ضرورت ہے اور جب تک اس کا ایک ایک فوجی ٹھکانے نہیں لگے گا وہ یہاں سے نہیں جائے گا۔ مغربی ممالک اس ملک پر ایک کھرب 30ارب ڈالر خرچ کرچکے ہیں۔ ایسے کیسے چلے جائیں۔ ابھی تو کئی منصوبے پائپ لائن میں ہیں، بھارت بھی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ امریکی قابض فوج کی حمایت افغان طالبان کو پسند نہیں آئے گی جن کے خیال میں دشمن کا دوست بھی دشمن ہوتا ہے۔