اردو غزل کے بہت سے اشعار مغرب کے بارے میں نہ ہونے کے باوجود حیرت انگیز طور پر مغرب سے متعلق معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
(پروین شاکر)
۔۔۔۔۔۔
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پا کر
میں تجھے قتل کروں پھر ترے ماتم میں رہوں
(رئیس فروغ)
۔۔۔۔۔۔
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
(شیفتہ)
۔۔۔۔۔۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
(اکبر الٰہ آبادی)
۔۔۔۔۔۔
یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروز عید قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
(انشااللہ خان)
ان شعروں میں اکبر کا شعر بھی مغرب کے بارے میں ہے مگر آج صرف انشاء اللہ خان انشاء کا شعر۔
آپ یقیناًاس سال امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی عراق کی 25 سالہ نادیہ مراد کے حوالے سے تفصیلی خبریں ملاحظہ کرچکے ہوں گے۔ اگرچہ نادیہ مراد کے ساتھ کانگو کے ایک ڈاکٹر ڈینس مک ویج کو بھی امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے مگر مغرب و مشرق کے ذرائع ابلاغ پر نادیہ مراد چھائی ہوئی ہیں۔ نادیہ مراد کا تعلق عراق کی یزیدی کمیونٹی سے ہے۔ عراق میں اس برادری کی آبادی پانچ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے بقول عراق کے بعض علاقوں پر داعش یا آئی ایس نے قبضہ کیا تو اس نے یزیدی برادری کے لوگوں بالخصوص خواتین کو نشانہ بنایا۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق داعش کے لوگوں نے یزیدی فرقے کی
خواتین کو زبردستی شادی کے بندھن میں باندھنے کی کوشش کی اور جو عورت اس پر آمادہ نہ ہوئی اس کی عصمت تار تار کی گئی۔ نادیہ مراد بھی ایسی ہی لڑکی ہے، مغرب کے خبر رساں اداروں کی اطلاعات کے مطابق داعش نے نادیہ کے خاندان کے اکثر لوگوں کو قتل کردیا۔ بہرحال نادیہ بالآخر داعش کے چنگل سے آزاد ہوگئی۔ 2017ء میں اس نے The last girl کے عنوان سے اپنی خود نوشت تحریر کی۔ نادیہ کو ادب کے نوبل انعام کی اطلاع ملی تو وہ رو دی۔ عراق کے وزیراعظم حیدر العابدی نے نادیہ مراد یزیدی کو امن کا نوبل انعام حاصل کرنے پر مبارک دی۔ عراقی پارلیمنٹ کے یزیدی رکن ویان داخل نے نادیہ کے نوبل انعام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدی پر نیکی اور تاریکی پر روشنی کی فتح ہے۔
آپ نے دیکھا مغرب کتنا ’’انسانی‘‘ کیسا ’’فرشتہ صفت‘‘ اور کتنا کشادہ دل ہے۔ ظلم طالبان کرتے ہیں اور مغرب ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام دے کر ایک مسلم لڑکی کی تعظیم اور تکریم کا اہتمام کرتا ہے۔ حالاں کہ بیچاری ملالہ نے نوبل انعام کیا لکس ایوارڈ کے برابر بھی کوئی کام نہیں کیا تھا۔ اسی طرح داعش نے ظلم و درندگی کا مظاہرہ کیا۔ نادیہ مراد کی عزت پامال کی مگر مغرب نے نادیہ مراد کو عزت اور شہرت کے آسمان پر بٹھادیا حالاں کہ ملالہ کی طرح نادیہ مراد نے بھی نوبل انعام کی سطح کا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا تھا۔ مغرب کے لیے تالیاں، مغرب تجھے سلام، مگر ذرا ٹھیریے، جلد بازی شیطان کا کام ہے، ہمیں اس سلسلے میں تاریخ سے رجوع کرنا چاہیے، شاید تاریخ کے ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد ہمیں مغرب کو سمجھنے میں مدد دیں۔
صدام حسین کا عراق بحیثیت مجموعی ایک خوشحالی اور پرامن ملک ہے، اگرچہ صدام سنی العقیدہ تھا اور عراق میں شیعوں کی اکثریت تھی مگر صدام کے عراق میں شیعہ سنی کا مسئلہ موجود نہیں تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق سنیوں اور شیعوں کے درمیان پانچ لاکھ سے زیادہ شادیاں ہوچکی تھیں اور صدام کی فوج ہی نہیں بیورو کریسی میں بھی سنیوں اور شیعوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ بلاشبہ بعض شیعہ علاقوں میں صدام کے خلاف بغاوت کی صورتِ حال پیدا ہوئی مگر یہ بغاوت عراق کی تاریخ کا مرکزی دھارا نہیں تھی۔ اس کی نوعیت استثنائی تھی اور عراق اس کا ذمے دار ایران کو سمجھتا تھا۔ کرد عراق کی ایک بڑی لسانی اکائی تھے مگر وہ بھی عراق کی وحدت کا حصہ تھے اور عراق میں آزاد کردستان کی کوئی تحریک موجود نہ تھی۔ عراق کے یزیدیوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ بیرونی دنیا ان کے نام اور موجودگی سے آگاہ ہی نہ تھی۔
اس منظرنامے میں اچانک امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں نے اعلان کیا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ جن سے امریکا اور یورپ کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ مغرب کے اشاروں پر ناچنے والی رقاصہ ہے مگر اس کے باوجود اقوام متحدہ نے کہا کہ اس کے انسپکٹرز کو عراق جانے اور اس امر کی تصدیق کی اجازت دی جائے کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں یا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ نے اپنے انسپکٹرز کو عراق بھیج دیا اور صدام نے انہیں پورا عراق چھاننے کی اجازت دے دی۔ صدام حسین کے دل میں چور ہوتا تو وہ اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کا استقبال نہ کرتا۔ اصولی اعتبار سے امریکا اور یورپی ممالک کو اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کی معائنہ رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے تھا مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اچانک عراق پر حملہ کردیا اور عراق میں ایک لاکھ سے زیادہ فوج اُتار دی۔
بلاشبہ اس بلاجواز اور غیر قانونی حملے سے صدام حسین کا اقتدار تو ختم ہوگیا مگر عراق کے پرخچے اُڑ کر رہ گئے۔ امریکا کی جان ہوپکن یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق مغرب کی جارحیت سے عراق میں پانچ برسوں میں 6 لاکھ افراد ہلاک ہوگئے۔ ان میں سے ایک لاکھ براہ راست جنگ سے مارے گئے اور باقی پانچ لاکھ جنگ کے اثرات کی نذر ہوگئے۔ عراق کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی۔ عراق سُنی عراق، شیعہ عراق اور کرد عراق میں تقسیم ہوگیا۔ خوشحال عراق بدحال عراق بن گیا اور خانہ جنگی نے عراق کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہمہ گیر بحران کی وجہ سے عراق کی سیاسی مرکزیت باقی نہ رہی اور پورا عراق طوائف الملوکی یا انتشار کی زد میں آگیا۔ اس صورتِ حال میں شیعہ، سُنّی اور کرد محفوظ نہ رہے تو صرف پانچ لاکھ یزیدی کیسے محفوظ رہتے؟۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ عراق کی یہ درگت کس نے بنائی؟ صدام حسین نے یا داعش نے؟ یا مغرب نے؟
ظاہر ہے اس صورتِ حال کا ذمے دار صرف اور صرف مغرب ہے۔ نہ امریکا اور اس کے اتحادی عراق کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتے نہ عراق عدم استحکام کا شکار ہوتا اور نہ نادیہ مراد کی کمیونسٹی ظلم کا شکار ہوتی۔ مگر مغرب کے ہزاروں ذرائع ابلاغ کا پروپیگنڈا لوگوں کو یہ سوچنے کی فرصت کہاں دیتا ہے؟۔
داعش نے نادیہ مراد اور اس کی برادری باالخصوص یزیدی عورتوں پر ظلم کیا بہت بُرا کیا مگر سوال تو یہ بھی ہے کہ داعش کا تخلیق کار کون ہے؟ امریکا کے سابق سینیٹر جان مکین جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، یہ کہہ چکے ہیں کہ داعش امریکا کی تخلیق ہے۔ امریکا کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن فرما چکی ہیں کہ داعش پر امریکا کا سایہ ہے۔ امریکا نے نائن الیون کے بعد حامد کرزئی کو افغانستان کا صدر بنوایا۔ اس اعتبار سے حامد کرزئی امریکا کے کھلے ایجنٹ کے سوا کچھ نہیں مگر امریکا کا یہ ایجنٹ ایک بار نہیں کئی بار کہہ چکا ہے کہ داعش امریکا کی تخلیق ہے۔ روس کا دعویٰ بھی یہی ہے۔ داعش عراق میں اُبھری تھی اور وہ عراق سے نکل کر افغانستان نہیں آسکتی تھی مگر روسی ماہرین کے بقول امریکا نے داعش کو فضائی راستے سے افغانستان منتقل کیا۔ داعش آزاد ہوتی تو امریکا اور یورپ اسے کبھی عراق سے نکل کر دنیا کے دوسرے خطوں میں نہ پھیلنے دیتے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو داعش نے عراق میں یزیدیوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا ذمے دار بھی امریکا اور یورپ ہے۔ اکبر الٰہی آبادی نے انگریزوں کے بارے میں کہا تھا
جج بنا کر اچھے اچھوں کا لبھا لیتے ہیں دل
ہیں نہایت خوشنما دو جیم ان کے ہاتھ میں
انگریزوں کے ہاتھ میں صرف دو جیم تھے۔ جدید مغرب کے ہاتھ میں امن کا نوبل انعام ہے۔ وہ پہلے عراق کو تباہ کرکے نادیہ مراد اور اس جیسی لڑکیوں کی عصمتیں تار تار کراتا ہے پھر ان میں سے ایک کو امن کا نوبل انعام دلا کر ساری دنیا سے داد سمیٹتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں
یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروزِ عید قرباں
وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
مغرب کی سفاکی اور انسانیت سوزی کا کھیل نیا نہیں مائیکل مان نے اپنی معرکہ آراء تصنیف The Dark Side Of Democracy میں ثابت کیا ہے کہ امریکا کے سفید فاموں نے سات سے دس کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کرکے امریکا قائم کیا۔ امریکا کے معروف اسکالر اینتھونی زِن نے اپنی تصنیف A Peoples history of unitded state of America میں دستاویزی شہادت کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں جاپانی ہتھیار ڈالنے والے تھے اور امریکیوں کو یہ بات معلوم ہوچکی تھی مگر اس کے باوجود محض دنیا کو ڈرانے کے لیے اس نے جاپان پر ایک نہیں دو ایٹم بم گرائے۔ صدام کے دور میں امریکا اور یورپ نے عراق پر اقتصادی پابندیاں عاید کیں۔ چناں چہ غذا اور دواؤں کی قلت سے عراق میں دس سال کے دوران دس لاکھ افراد غذا اور دواؤں کی قلت سے ہلاک ہوگئے۔ ان میں پانچ لاکھ بچے بھی شامل تھے۔ امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈلن البرائیٹ سے جب بی بی سی کے نمائندے نے پوچھا کہ آپ پانچ لاکھ بچوں سمیت دس لاکھ لوگوں کی ہلاکت پر کیا کہتی ہیں تو انہوں نے فرمایا:
it is acceptable and worth it۔ یعنی دس لاکھ لوگوں کی ہلاکت ہمارے لیے قابل قبول ہے اور یہ ہلاکتیں قابل فہم بھی ہیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ نے نادیہ مراد کے نوبل انعام کے حوالے سے جاری ہونے والی خبروں میں اس بات پر بھی کافی زور دیا ہے کہ داعش غیر مسلمانوں کو زبردستی مشرف بہ اسلام کرتی تھی۔ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ انہوں نے کسی بھی دور میں کسی بھی غیر مسلم کو زبردستی مشرف بہ اسلام نہیں کیا، اس لیے کہ اسلام صاف کہتا ہے کہ دین کی قبولیت کے سلسلے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ مسلمانوں نے جبر کو ایک فی صد بھی استعمال کیا ہوتا تو ایک ہزار سال میں پورا ہندوستان مسلمان ہوجاتا۔ چناں چہ داعش نے مذہب کی تبدیلی کے سلسلے میں کوئی زور زبردستی کی ہوگی تو یہ بھی مغرب کے ایجنڈے کے عین مطابق ہوگی۔ ایک وقت تھا کہ مغرب نے ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام دے کر طالبان کو بدنام کیا تھا۔ مغرب کی دلجوئی کے لیے ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ طالبان بُرے ہوں گے مگر سوال یہ ہے کہ خود طالبان کیسے وجود میں آئے تھے۔ افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے بعد گلبدین حکمت یار کو افغانستان کا وزیراعظم بننا تھا، برھان الدین ربانی کو افغانستان کا صدر اور احمد شاہ مسعود کو وزیر دفاع مگر امریکا گلبدین کو مغرب مخالف سمجھتا تھا، چناں چہ اس نے افغان مجاہدین کو آپس میں لڑا دیا۔ کئی سال کی خانہ جنگی کے بعد جیسے عراق میں سیاسی خلا پیدا ہوا اور داعش وجود میں آئی، اس طرح افغانستان میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا سے طالبان کا ظہور ہوا۔ نہ امریکا افغانوں کو لڑاتا نہ طالبان وجود میں آتے۔ یہ حقائق عیاں ہیں مگر مغرب کے ذرائع ابلاغ کا پروپیگنڈا کسی کو ان حقائق پر سوچنے ہی نہیں دیتا۔ چناں چہ مغرب ابلیس ہو کر فرشتہ بنا ہوا ہے۔