درآمدات پر پابندی

184

حکومت نے معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے عام آدمی کی معیشت کو مزید گراوٹ کا شکار کردیا ہے۔ 570 مصنوعات کی در آمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی عاید کردی ہے جس سے توقع ہے کہ 20 ارب روپے کی اضافی آمدنی حاصل ہوگی۔ پاکستان کی بر آمدات اور درآمدات کا تناسب بری طرح غیر متوازن ہے چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر ضروری اشیا کی در آمد پر مکمل پابندی لگادی جائے۔ اس سے ملک میں تیار ہونے والی اشیا کی کھپت بھی بڑھے گی اور ممکن ہے کہ ان کا معیار بہتر ہوجائے۔ پڑوسی ملک بھارت میں طویل عرصے تک در آمدات پر پابندی عاید رہی اور ملک میں تیار ہونے والی اشیا کے استعمال پر زور دیا گیا، خواہ ان کا معیار کیسا ہی ہو۔ اس کی وجہ سے نہ صرف ملکی صنعت کو فروغ ملا بلکہ آہستہ آہستہ معیار بھی بہتر ہوگیا۔ کاریں اور اسکوٹر ملک ہی میں بننے لگے۔ یہ اور بات کہ اب غیر ملکی در آمدات کا دروازہ کھل گیا اور امریکی مصنوعات کی بہتات ہوگئی، امریکا کو بھی ایک بڑی منڈی مل گئی۔ لیکن پاکستان میں ایسی کوئی پابندی نہیں تھی جس کی وجہ سے پاکستان بیرونی مال کی منڈی بن گیا اور بیشتر افراد ’’فارن کا آئیٹم‘‘ تلاش کرنے لگے۔ اس سے دہرا نقصان ہوا اور پاکستانی صنعتیں بیمار ہوگئیں، در آمدات بڑھنے لگیں۔ ان در آمدات میں سامان تعیش بھی شامل ہے۔ پاکستان کا کپڑا (ٹیکسٹائل) دنیا بھر میں مقبول تھا مگر اب عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کرسکتا اور اس کے مقابلے میں بنگلا دیش تک کا کپڑا بازی لے گیا ہے حالانکہ وہاں کپاس پیدا نہیں ہوتی۔ پاکستان اس وقت کپڑے کے بجائے دھاگا بر آمد کررہاہے۔ پاکستانی منڈی پر عرصے تک جاپانی کپڑے کا راج رہا۔ پاکستان کی صنعتوں کی ابتری میں اور بھی کئی عوامل کار فرما ہیں لیکن جب در آمدات پر پابندی لگے گی تو پاکستانی صنعتوں کو فروغ ہوگا۔ در آمدات پر پابندی لگاتے ہوئے یہ ضرور ملحوظ رکھا جائے کہ کون سی اشیا ایسی ہیں جو عام آدمی کے استعمال میں اور پاکستان میں دستیاب نہیں یا نسبتاً مہنگی ہیں مثلاً بچوں کے پیمپررزجو در آمدی پیمپرز کے مقابلے میں مہنگے ہیں۔ خشک دودھ کی بھی قیمت بڑھادی گئی جو بچوں کے استعمال کی چیز ہے۔ گاڑیوں کی در آمد پر مکمل پابندی لگ جائے تو بھی ہرج نہیں۔ مکھن، شہد اور چاکلیٹ کی در آمد غیر ضروری ہے۔ شہد تو خود پاکستان میں وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ شہد کی پیداوار کو ملک میں مزید فروغ دیا جاسکتا ہے۔ کاسمیٹکس اور میک اپ کا سامان در آمد کرنا بھی عیاشی ہے۔ ایک زرعی ملک میں پھل اور سبزیاں در آمد کرنا بھی ظلم ہے لیکن در آمدی اشیا پر حکومت کو بھی تو ٹیکس ملتا ہے۔