قوت فیصلہ کی کمی

318

عمرانی حکومت کسی بھی معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے گریزاں رہتی ہے جس پر مخالفین یوٹرن لینے کی پھبتی کستے ہیں اور عمران خان کو یوٹرن خان کہنے لگے ہیں۔ عمران خان کی نیت پر شبہ کرنا مناسب نہ ہوگا۔ وہ یقیناًپاکستان کی بہتری چاہتے ہیں لیکن یا تو قوت فیصلہ کی کمی ہے یا ان کا اور ان کے ماہرین کی ٹیم کا کوئی وژن نہیں ہے۔ وزیر خزانہ ہی کو لے لیں۔ حزب اختلاف میں انہیں شیڈو وزیر خزانہ سمجھاجاتا تھا لیکن وہ ابھی تک ’’شیڈو‘‘ ہی ہیں۔ حزب اختلاف میں رہ کر جن باتوں پر ایوان میں کھڑے ہوکر شدید تنقید کیا کرتے تھے، آج خود و ہی کررہے ہیں اور تاویلات بھی پیش کررہے ہیں کہ جو پہلے کہا تھا وہ صحیح تھا، آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے اعلان کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ دنیا بھر میں گیس کی قیمت میں زبردست کمی ہوئی ہے لیکن نواز شریف حکومت نے گیس کی قیمت بڑھادی حالانکہ گیس تو خود پاکستان میں پیدا ہوتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے گیس کی قیمت میں جو اضافہ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ گیس، پیٹرول سے زیادہ مہنگی ہونے کی وجہ سے گیس فراہم کرنے والے ادارے احتجاج کررہے ہیں کہ پیٹرول کے مقابلے میں گیس کو ترجیح کون دے گا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بارے میں بھی روز بیانات بدلے جارہے ہیں۔ کہا جارہاتھا کہ اس سے قرض لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور یہ بھی طے ہوگیا تھا کہ اس سے کتنے ڈالر لیے جائیں گے۔ تاہم گزشتہ بدھ کو ذرائع ابلاغ کے وفود سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ ہوسکتا ہے آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں۔ یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چلے جائیں۔ حیص بیص کی یہ کیفیت مناسب نہیں ہے۔ نہ جانے کے امکان کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے بتایا کہ چند دوست ممالک سے تعاون مانگا ہے جس کا مثبت جواب آیا ہے۔ دوست ممالک میں ایک چین ایسا ہے جو مزید قرض دے سکتا ہے۔ چین کی ریاستی کونسل کے حکام نے کہاہے کہ چین پاکستان میں غربت کے خاتمے کا پروگرام تشکیل دینے میں پر عزم ہے، وہ دیگر دوست ممالک میں بھی غربت ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔ اس بیان میں پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کسی قسم کا قرض دینے کی بات نہیں کی گئی بلکہ پاکستان سمیت دوست ممالک سے غربت کے خاتمے میں تعاون کی بات کی گئی ہے۔ اس کے لیے چین کا اپنا مخصوص پروگرام ہوگا۔ اس سے بالواسطہ طور پر تو مدد مل سکتی ہے کہ غربت دور ہونے یا اس میں کمی سے غریبوں کو فائدہ ہوگا مگر حکومت کے خزانے میں کچھ نہیں آئے گا۔چین اپنے مجوزہ منصوبے پر عمل کے لیے کچھ شرائط بھی ضرور عاید کرے گا۔ مثلاً یہ کہ منصوبے کی نگرانی چین کے ہاتھ میں ہو۔ یہ اس لحاظ سے بہتر بھی ہے کہ پاکستان میں بد عنوانی کا جو سیلاب آیا ہوا ہے اس کا عمل دخل نہیں ہوگا۔ جہاں تک چین سے کسی قسم کے قرض کے حصول کا تعلق ہے تو اس ضمن میں چین کا بین الاقوامی کردار ضرور مد نظر رہے۔ مشہور زمانہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے لیے قرضے چین کی حکومت نہیں بلکہ اس کے بینک دے رہے ہیں۔ واپسی میں تاخیر ہوئی تو چین کی حکومت ایک طرف ہوجائے گی کہ یہ تو اس کے بینکوں کی رقم ہے، حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔ عمران خان جلد ہی چین جارہے ہیں جہاں ممکن ہے کہ کے الیکٹرک کو شنگھائی الیکٹرک کمپنی کے حوالے کرنے کا معاملہ طے پائے۔ کے الیکٹرک، ابراج کمپنی اور شنگھائی الیکٹرک کمپنی کے معاملات کے بارے میں امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے بڑی خوفناک رپورٹ پیش کی ہے اور کرپشن کے کئی پہلو سامنے آئے ہیں۔ اس کی بھرپور تحقیق کرنا موجودہ حکومت کی ذمے داری ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے میں عمران خان ابھی شش و پنج اورگو مگو کا شکار ہیں اور آئی ایم ایف کی شرائط بھی بہت کڑی ہیں۔ اس کے پیچھے امریکا کھڑا ہوا اسے ہشکار رہا ہے اس سے ہٹ کر عمران خان نے مزید کہاہے کہ ہم عام آدمی کی مشکلات کم کریں گے، تعلیم، صحت اور سماجی شعبے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ 6 ماہ میں بہت کچھ بدل جائے گا۔ اب تک کی کارکردگی دیکھتے ہوئے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ خدا کرے کہ عام آدمی کی مشکلات کم ہوجائیں جن میں صرف 60 دن میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں گزشتہ 5 سال حکومت رہی ہے۔ لیکن وہاں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں نمایاں بہتری نہیں آسکی۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے 69 اسکول تباہی کا شکار ہیں۔ ان میں پشاور اور سوات کے اسکول بھی شامل ہیں اور حکومت کی یہ دلیل صحیح نہیں کہ یہ اسکول دور دراز کے علاقوں میں ہیں۔ صحت کے حوالے سے صوبے کے سرکاری اسپتالوں کے بارے میں عدالت عظمیٰ برہمی کا اظہار کرچکی ہے۔ 5 سال کی حکومت میں ایک صوبے کے معاملات درست نہ ہوئے تو ملک بھر میں یہ کام اور بھی مشکل ہوگا۔ عمرانی حکومت آئی ایم ایف کے پھندے میں نہ پھنسے تو بہت اچھی بات ہوگی لیکن گداگروں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ ایک پھندا نہ سہی کوئی دوسرا پھندا۔