صرف مجاہد کامران کیوں؟

209

پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کو ہتھکڑی لگانے پر ایڈیشنل ڈی جی نیب کو معطل کردیاگیا۔ سابق وی سی اور دیگر اساتذہ کو ہتھکڑی لگانے پر چیف جسٹس پاکستان نے نوٹس لیا تھا اور اس کے نتیجے میں ڈی جی نیب جسٹس جاوید اقبال نے ایڈیشنل ڈی جی محمد رفیع کو معطل کردیا۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ چیف جسٹس نے ڈاکٹر مجاہد کامران اور 6دیگر اساتذہ کو ہتھکڑی لگاکر پیش کرنے کا نوٹس لیا ہے یہ بات تو ساری دنیا نے دیکھی ہے کہ عدالتوں میں پیشیوں کے حوالے سے تفتیشی اداروں کے دہرے معیارات ہیں۔ 4 سو افراد کے قتل کے ملزم کو وی آئی پی پروٹوکول میں عدالت میں پیش کیا گیا جب کہ دیگر سیاسی قیدیوں کو نہایت بد تہذیبی کے ساتھ عدالت لایاجاتا ہے۔ اساتذہ کا معاملہ تو ویسے بھی خاص توجہ کا مستحق ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ صرف ڈاکٹر مجاہد کامران کیوں۔ چند روز قبل سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چودھری کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔ 29 اکتوبر 2015کو بہا الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر علقمہ خیر الدین کے ساتھ بھی بد تہذیبی کا مظاہرہ کیا گیا۔چند دن پہلے مردان یونیورسٹی کے پروفیسر کو بھی ہتھکڑیااں لگائی گئیں۔ ان پر ریکارڈ جلانے کا الزام تھا۔ کراچی تعلیمی بورڈ کے چیئرمین انوار احمد زئی کو محض الزام پر گرفتار کرلیاگیا۔ تفتیشی اداروں کو آزادی ضرور ہونی چاہیے لیکن مادر پدر آزادی نہیں اس کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ بہر حال چیف جسٹس نے نوٹس لیا ہے تو تمام اساتذہ کے بارے میں کوئی فیصلہ بھی دے تاکہ تفتیشی ادارے گرفتاری کے وقت تہذیب کے دائرے میں رہ سکیں۔