مقبوضہ کشمیر اس وقت لہو میں ڈوبا ہوا ہے۔ بھارتی فوج کے آئے روز کے آپریشن سے بستیوں میں کشمیری لہو کے چھینٹے اُڑ رہے ہیں، نوجوان بپھرے ہوئے ہیں وہ تعلیم گاہوں سے اپنا رُخ موڑ کر مسلح تحریک مزاحمت کا حصہ بن رہے ہیں، عوام میں شدید ہیجان و اضطراب برپا ہے، وہ مقبوضہ علاقے میں کسی نام نہاد جمہوری عمل کا حصہ بننے کے بجائے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، وہ فیصلہ جو گزشتہ پون صدی سے بھارتی جارحیت کا شکار ہے اور ابھی تک عملی شکل اختیار نہیں کرپایا۔ حالاں کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ فیصلہ کیا ہے، عالمی ذرائع ابلاغ اس فیصلے کی گواہی دے رہے ہیں وہ صاف لکھ رہے ہیں کہ کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے وہ ہر قیمت پر آزادی چاہتے ہیں۔ کشمیری نوجوانوں نے اس بڑے مقصد کے لیے اپنے شاندار مستقبل کو داؤ پر لگادیا ہے۔ وہ پی ایچ ڈی کرنے اور مختلف شعبوں میں امتیازی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود عسکریت کو گلے لگارہے ہیں کہ ان کے نزدیک بھارت سے نمٹنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ حال ہی میں امریکا کے ممتاز اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے یہی تجزیہ پیش کیا ہے۔ بھارت کی ممتاز مصنفہ اور انسانی حقوق کی علمبردار خاتون مادام ارون دھتی رائے اس بات پر حیران ہیں کہ جب کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بھارت انہیں اپنے ساتھ رکھنے اور اپنے وسائل ضائع کرنے پر کیوں مصر ہے؟ وہ پوچھتی ہیں کہ کیا محض زمین کے ایک ٹکڑے پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے بے گناہ لوگوں کا خون بہانا اور اس کے نتیجے میں قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا جائز ہے؟۔ لیکن بھارتی حکمران ان سوالوں سے بے نیاز اپنے کام میں مصروف ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں متعدد ناکام انتخابی ڈراموں کے بعد نام نہاد بلدیاتی انتخابات کا ایک اور ڈراما رچانے کا فیصلہ کیا ہے جو ماہِ رواں (اکتوبر) میں تین مرحلوں میں کرائے جارہے ہیں یہ وہ ڈراما ہے جس میں مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی حصہ لینے سے انکار کردیا ہے۔ میدان میں صرف دو سیاسی جماعتیں ہیں، ایک بھارت کی حکمران بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) دوسری آل انڈیا کانگریس، یہ دونوں غیر کشمیری جماعتیں ہیں جن کا مقبوضہ کشمیر کی داخلی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج قائم ہے، یعنی بھارت کی مرکزی حکومت براہِ راست مقبوضہ علاقے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے اور وہی بلدیاتی اداروں کے لیے نام نہاد امیدواروں کے نام بھی فائنل کررہی ہے۔ بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے علاوہ حریت قیادت نے بھی کشمیری عوام سے اس انتخابی ڈرامے کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ عوام یوں بھی ہر قسم کے سیاسی عمل سے لاتعلق اپنے مصائب کا شکار ہیں، ان کے لیے
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
وہ بھارتی فوج کے چھاپوں اور پکڑ دھکڑ کے ماحول میں انتخابی ڈرامے میں کیسے حصہ لے سکتے ہیں۔ ایک طرف نوجوان مارے جارہے ہیں، جنازے اُٹھ رہے ہیں، سڑکوں پر ماتم برپا ہے، آزادی کے نعرے لگ رہے ہیں، پاکستانی پرچم لہرائے جارہے ہیں اور دوسری طرف انتخابی ڈراما!
بھلا یہ کیسے ممکن ہے، چناں چہ 8 اکتوبر کو اس ڈرامے کا جو پہلا ایکٹ کھیلا گیا اس میں رائے دہندگان یعنی حصہ لینے والوں کی تعداد دو فی صد سے زیادہ نہ تھی جب کہ سرکاری طور پر مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اسے 6 فی صد قرار دیا گیا تھا۔ لطیفہ یہ ہے کہ جو امیدوار اس ڈرامے میں حصہ لے رہے ہیں الیکشن اتھارٹی نے ان کے نام بھی ظاہر نہیں کیے۔ بس یہ بتایا گیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کی کُل 548 نشستوں میں صرف 178 نشستوں پر پولنگ ہو رہی ہے جب کہ باقی نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ کامیاب قرار پائیں گے اور ماہ رواں کے آخر تک اس ڈرامے کے آخری سین یعنی نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔ کیا ان نتائج کے بعد بلدیاتی ادارے بھی وجود میں آجائیں گے اور کیا جو نامعلوم امیدوار ’’منتخب‘‘ ہوں گے وہ عوام میں آنے کا حوصلہ بھی رکھیں گے؟۔ اِن سوالوں کا کوئی جواب دینے کو تیار نہیں ہے۔ بھارت عالمی رائے عامہ کو بس یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں معمول کا سیاسی و جمہوری عمل جاری ہے اور کشمیری نوجوان پاکستان کی انگیخت پر بغاوت پر اُتر آئے ہیں۔ دُنیا کو مغالطہ دینے کا یہ بھارتی حربہ
مدت ہوئی پٹ چکا ہے لیکن بھارت ابھی تک پرانی لکیر کو پیٹ رہا ہے۔ حالاں کہ اس کے تھنک ٹینکس خواہ سول ہوں یا فوجی یہ دہائی دے رہے ہیں کہ محض طاقت کے استعمال سے کشمیر کی تحریک آزادی کو عارضی طور پر دبایا تو جاسکتا ہے لیکن اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا کوئی نہ کوئی سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا۔ نئی دہلی میں مقیم ممتاز کشمیری صحافی افتخار گیلانی نے اپنے حالیہ کالم میں ایک فوجی تھنک ٹینک کے سیمینار کی روداد بیان کی ہے جس میں ریٹائرڈ فوجی افسران کا موقف یہی تھا کہ ہم مقبوضہ کشمیر میں بے تحاشا فوجی طاقت استعمال کرکے اپنی منزل کھوٹی کررہے ہیں لیکن بھارتی قیادت کو اس گرداب سے نکالنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے، بلدیاتی انتخابات کا ڈراما بھی اسی ہیجان کا اظہار تھا۔ اب اس کے پاس واحد آپشن یہ رہ گیا ہے کہ بھارتی آئین میں ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی شق 35A کو عدالتی فیصلے کے ذریعے حذف کرواکر مقبوضہ ریاست میں بڑے پیمانے پر ہندوؤں کو آباد کرکے مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کردیا جائے لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے نہ جانے کتنی مدت درکار ہوگی، اس وقت تک حالات کتنی ہی کروٹیں بدل چکے ہوں گے اور بھارت دیواروں سے سر ٹکرا رہا ہوگا۔