ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر

533

خبر کے مطابق پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکا مکمل امن قائم ہونے تک افغانستان سے نہ جائے۔ میجر جنرل آصف غفور کے بقول مغربی ممالک نے افغانستان میں 1.3 کھرب ڈالر خرچ کردیے اس کے باوجود وہاں 70 فی صد علاقے پر تاحال طالبان کا قبضہ ہے۔ لندن کی وارک شائر یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کا امن ایک دوسرے سے مشروط ہے، افغانستان کی صورت حال پر مغربی سرحد پر پاک فوج ہر وقت الرٹ رہتی ہے۔ تر جمان پاک فوج نے کہا کہ پاکستان کے بغیر خطے اور دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا، القاعدہ کو کبھی بھی ہماری مدد کے بغیر شکست نہیں ہوسکتی تھی، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قربانیوں پر دنیا کو پاکستان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، پاک فوج کے آپریشن سے دہشت گردوں کی کارروائیاں صفر ہوگئی ہیں۔
جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا تھا کہ ؂
آدمی بزم میں دم تقریر
جب کوئی حرف لب پہ لاتا ہے
در حقیقت خود اپنے ہی حق میں
کچھ نہ کچھ فیصلہ سناتا ہے
دنیا کا پتا نہیں لیکن ہم پاکستانی اسی فریب میں مبتلا رہے کہ القاعدہ کی تباہی و بربادی میں امریکا کا ہاتھ ہے لیکن اب یہ راز کھلا کہ القاعدہ کو امریکا کے مقابلے میں پاکستان نے زیادہ نقصان پہنچایا بلکہ اصل میں پاکستان ہی نے اس تنظیم کے تاروپود بکھیر کر رکھ دیے اور اب عملاً اس کا دنیا میں کوئی وجود نہیں۔
دعویٰ ہے کہ سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ان کی وجہ سے ہوئی۔ راقم اس دعوے کی سچائی میں کسی بھی قسم کے تردد کا شکار نہیں لیکن روس یا سوویت یونین کو افغانستان سے باہر نکال پھینکنے میں اور اس کے بعد ٹوٹ کر بکھر جانے پر مجبور کرنے میں پاک فوج بیشک ماسٹر مائنڈ رہی ہو لیکن جانوں کی قربانیاں دینے اور بے جگری سے لڑکر مارنے اور مرجانے میں صرف اور صرف القاعدہ اور ان سے منسلک جہادیوں اور جہادی تنظیموں ہی کا ہاتھ تھا جس کی وجہ سے اس وقت کی دنیا کی دوسری بڑی طاقت روس گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا۔ اس پورے دورانیے میں پاک افواج کی عملاً شرکت کا اگر کوئی ریکارڈ ہے بھی تو اس کا علم شاید ہی کسی کو ہو۔
کمال کی بات یہ ہے جب تک روس افغانستان میں تھا اور اس کو افغانستان سے نکالنا پاکستان اور امریکا کے مفاد میں تھا اس وقت وہاں القاعدہ اور وہ تمام جہادی تنظیمیں بہت خوبصورت، نیک سیرت اور جذبہ جہاد سے سرشار دکھائی دیتی تھیں لیکن سوویت یونین کے جانے کے بعد اور امریکا کے روس میں داخل ہونے پر القاعدہ اور جہادی تنظیمیں یک دم دہشت گرد اور شرپسند کہلانے لگیں اور ان سب سے نجات اور ان کی بیخ کنی پاکستان پرفرض اعمال سے بڑھ کر فرض ہو گئی۔ مگر کیوں؟، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب جب تک نہیں ڈھونڈا جائے گا اس وقت تک یہ سمجھ لیا جائے کہ افغانستان اور پاکستان میں امن قائم ہو سکتا ہے، مجذوب کی بڑ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی افواج اور عوام کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور اس کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم نے امریکا کی پالیسیوں کی اتباع کی اور اس کے مقتدی بن کر افغان جنگ میں شریک رہے لیکن یہ بات بھی سوچنے اور غور کرنے کی ہے کہ پاکستان کے عوام یا پاک افواج کب سے جہادیوں کا اہداف بنے لگے۔ جب تک روس افغانستان میں تھا، پاکستان اخلاقی طور پر افغانیوں کی پشت پر تھا، القاعدہ کو منظم کرنے، ان کی مدد کرنے، ان کے لیے اپنی زمینیں دینے اور ان کی تربیت کرنے میں شریک تھا تو اس وقت تک پاکستان میں امن بھی تھا اور سکون بھی۔ پاک فوج پر کوئی دباؤ نہیں تھا اور پورے ملک میں کہیں بھی کوئی تخریب کاری نہیں ہو رہی تھی۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ القاعدہ ہو، افغانی طالبان یا پاکستان کے جہادی، سب کے سب پاکستان کے ہمدرد تھے۔ حالات اس وقت خراب ہوئے جب امریکا نے افغانستان میں قدم جمائے۔ جس طرح روس کا افغانستان میں داخلہ القاعدہ یا طالبان کو پسند نہیں تھا بالکل اسی طرح امریکا کا افغانستان میں داخل ہونا القاعدہ یا طالبان کیسے گوارہ کر سکتے تھے۔ لہٰذا رد عمل آنا ہر صورت میں بنتا تھا سو ایسا ہی ہوا۔ امریکا کو یہ بات کسی طرح برداشت ہو سکتی تھی۔ القاعدہ اور طالبان کے خلاف اس کے اقدامات تو بہر صورت بنتے ہی تھے لیکن پاکستان کے نظروں کا توتا چشم ہوجانا کہیں سے کہیں تک بھی درست نہیں تھا کیوں کہ القاعدہ ہو یا طالبان، ان دونوں تنظیموں میں ایک جانب تو پاکستانیوں کی اکثریت تھی تو دوسری جانب یہ ہمارے ہی تربیت یافتہ، دلیر، بہادر اور جان و مال کی قربانی دینے والے لوگ تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ پاکستان کے لیے بہت مخلص تھے تو شاید بے جا نہ ہوگا اس لیے کہ اگر یہ روس کے ساتھ بے جگری سے نہیں لڑے ہوتے تو آج روس پاکستان پر نہ صرف قابض ہو چکا ہوتا بلکہ وہ گہرے اور گرم سمندر کا مالک بن کرامریکا کو بھی ہڑپ کر چکا ہوتا۔ یہ القاعدہ جیسی تنظیموں کی قربانیوں کا ثمرہ تھا جس کی وجہ سے آج پاکستان پاکستان کہہ لارہا ہے ورنہ شاید اس کو ازبکستان ماننے کے لیے بھی دنیا تیار نہیں ہوتی۔ جن کی قربانیوں اور جذبہ جہاد کی وجہ سے پاکستان روس کے ہاتھوں محفوظ رہا وہ تمام تنظیمیں آج پاکستان میں زیر عتاب ہیں اور ان کی بیخ کنی پر نہ صرف فخر وغرور کا اظہار کیا جا رہا ہے بلکہ دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ ہم ہی ان کی تباہی کے ذمے دار ہیں اور ہماری ہی وجہ سے امریکا افغانستان میں امن و سکون کا سانس لے رہا ہے۔ بات اگر یہیں پر ہی بس ہوجاتی تو پھر بھی قابل برداشت تھی، لیکن بات اس حد تک آگے چلے جانا سمجھ سے باہر ہی نہیں عزت وغیرت کے خلاف بھی محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے ہی کہنے پر جہاد پر کفن باندھ کر کٹ مرنے والے ہمارے ہی نشانے پر ہوں۔
پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکا افغانستان سے نہ جائے۔ ترجمان پاک فوج کی یہ درخواست کئی سوالوں کو جنم دے رہی ہے۔ روزنامہ جسارت کے اداریے نے اس سلسلے میں جو سوال اٹھایا ہے وہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ اداریہ میں کہا گیا ہے کہ: ’’پاک فوج کے ترجمان کا یہ کہنا کہ وہ افغانستان میں مکمل امن قائم ہونے تک نہ جائے ایک طرح کی امریکا سے درخواست ہے کہ ہمیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہیں جانا ورنہ امریکی فوج کے نکلتے ہی وہ پاکستان پر چڑھ دوڑیں گے‘‘۔ اداریہ میں مزید یہ بھی کہا ہے کہ ’’یہ فرمائش پہلی بار نہیں کی گئی بلکہ ماضی میں بھی کہا گیا تھا کہ امریکی فوج ہمارا کام کررہی ہے یعنی جن عناصر سے پاکستان کو خطرہ ہے وہ ان کو مار کر ہماری مدد کررہی ہے‘‘۔ یہ دونوں بیانات اس بات کی گواہیاں دے رہیں کہ ماضی میں جس جہاد کا نعرہ لگا کر لاکھوں نوجوانوں کو افغان جنگ کا ایندھن بنایا گیا تھا اور روس کے افغانستان سے نکل بھاگنے کے بعد جن کو خود اپنے ہاتھوں ستایا اور دبایا گیا تھا، وہ در پردہ جہاد فی سبیل اللہ نہیں جہاد فی المفادات امریکیہ تھا۔ روس کے بھاگ جانے کے بعد کیوں کہ امریکا کے مفادات بدل چکے تھے اس لیے پاکستان کا توتا چشم ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ لہٰذا ضروری ہو گیا تھا کہ پاکستان کی پالیسیاں اور مفادات بدل جانے کے بعد جہادیوں کو بھی ’’جہاد‘‘ کا مفہوم بدل لینا چاہیے تھا لیکن ان کی ضد نے اس کو قبول نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان پر پاکستانی فوج کا دباؤ آیا اور اس دباؤ کے رد عمل کے طور پر پاکستان میں فورسز پر بھی حملے ہوئے اور پورے پاکستان میں معصوم و بے قصور عوام بھی زد پر آئے۔
گزارش کی جا رہی ہے کہ امریکا افغانستان میں مکمل قیام امن سے قبل جانے کا نام نہیں لے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 17 سال میں بھی اگر افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکا تو امریکا کو اور کتنی مدت درکار ہوگی۔ گزارش کرنے والے بھی اُس ملک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہر 14 دن کا ریمانڈ مزید 14 دنوں میں اور امن کے قیام کے نام پر 90 دن کی توسیع مزید 90 دنوں کے لیے مانگ لی جاتی ہے لیکن پھر بھی کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاتا تو ایسے ملک کی جانب سے امریکا سے یہ کون پوچھ سکتا ہے کہ مکمل قیام امن میں اور کتنے برس لگ سکتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ طالبان ہوں یا القاعدہ، یہ سب ہمارے دوست ہی ہوا کرتے تھے جن کو اب ہم اپنا دشمن بنا چکے ہیں اور امریکا ہمارا نہ تو کبھی دوست تھا نہ آج ہے جس کو ہم اپنا دوست بناتے بناتے اپنے آپ کو تباہ برباد ہو چکے ہیں لیکن ہم اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ اگر یہ نقطہ سمجھ میں آجائے تو افغانستان ہی کیا پاکستان بھی گل و گلزار بن سکتا ہے۔ امریکا اور پاک فوج کو سمجھ لینا چاہیے کہ افغانستان بہر لحاظ افغانستانیوں ہی کا ہے بالکل جیسے کشمیر کشمیریوں کا اور فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ پاکستان بھی ہر صوبے اور ہر شہر کے لوگوں ہی کا ہے۔ جیسے افغانستان اور کشمیر میں غیر ملکی فوجوں کے ذریعے قیام امن ممکن نہیں اسی طرح ’’ملکی‘‘ فوج کے ذریعے قیام امن ممکن نہیں۔ نہ قیام امن کے لیے امریکا کی توسیع مدت کی ضرورت ہے اور نہ ہی پاکستان میں ہر 90 دن کے بعد مزید 90 دن کی توسیع مانگنے کی۔ بات اگر سمجھ میں آجائے تو بہت خوب ورنہ حالات جیسے چل رہے ہیں چلتے رہیں گے۔