حقوق البشر کا دم توڑتا ہوا نعرہ

302

صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ بھارت ستر سال سے کشمیر کے حوالے سے دنیا کو فریب اور جھوٹ کی کہانی سنا رہا ہے ہمیں اپنے سچ کو سچ ثابت کرنے لیے محنت کرنا ہے۔ کشمیر کے بارے میں ریاستی عوام کا موقف سچائی پر مبنی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے بھی برطانیہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر موجودہ دور کا سب سے اہم اور سنگین مسئلہ ہے۔ صدر آزاد کشمیر کا یہ کہنا بجا ہے کہ کشمیر پر نہ صرف کشمیری عوام بلکہ پاکستان کا موقف سچائی اور دیانت داری پر مبنی ہے مگر اس کا کیا کیجیے کہ دنیا میں آج ہر طرف جھوٹ کا بازار سجا ہوا ہے اور بھارت نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس بازار میں اپنا جھوٹ فروخت کر رہا ہے اور اس بازار میں ہماری مثال اپنا ٹھیلا لیے رات کو بے نیل ومرام گھر لوٹنے والے جیسی ہے۔ ہم اپنا سچ پوری دنیا کو دکھاتے اور سمجھاتے پھر رہے ہیں مگر جھوٹ کے بازار میں ہمارے سچ کا کوئی خریدار نہیں۔ آج انسانی حقوق اور انصاف اور عدل کی خاطر قائم عالمی ادارے جھوٹے کے بازاروں میں بدل چکے ہیں۔ جہاں تجارت اور سرمائے کا سکہ چل رہا ہے۔ اس بازار میں اقدار کا قطعی کوئی گزر نہیں۔ اس سکے نے ان کے نعروں کو ڈھکوسلہ ثابت کیا ہے۔ انسانی حقوق مغرب کا نعرہ تھا مغرب نے اس نعرے کا سودا مدتوں جم کر بیچا۔ انسانی حقوق کے نام پر ادارے بنائے گئے۔ ایوارڈ جاری کیے گئے تنظیمیں قائم ہوئیں اور اس نعرے کی بنیاد پر قائم ہونے والی تنظیموں کی بھرپور سرپرستی کی گئی۔ انسانی حقوق کے نام قوموں اور ملکوں کے خیموں میں سینگ پھنسائے گئے۔ انسانی حقوق کے نعرے سے اُکتاہٹ ہوئی تو بات جانوروں کے حقوق تک جا پہنچی۔ اب شاید مغرب جانوروں کے حقوق کے تصور پر تو قائم ہے مگر انسانی حقوق کا تصور اب وقت گزاری اور مباحثوں اور مناظروں تک سمٹ گیا ہے اور یہ اس نعرے اور تصور سے دستبرداری اور گلو خلاصی ہی کی ایک شکل اور کوشش ہے۔ ان کا طرز عمل اس تصور اور نعرے ساتھ ہاتھی کے دانت کی طرح کھانے کا اور دکھانے کا اور والا معاملہ ہو رہا ہے۔
مغرب بیرونی دنیا میں انسانی حقوق سے زیادہ تجارت کو فوقیت اہمیت دے رہا ہے۔ یوں انسانی حقوق کا نعرہ ایک ڈھکوسلہ سا بنتا جا رہا ہے۔ مغرب کے اثر رسوخ کے حامل اداروں میں اب یہ نعرہ اپنی کشش کھو رہا ہے۔ انسانی حقوق جو مغرب کا نعرہ اور ہتھیار تھا اب فقط ایک لطیفہ بن کر رہ گیا ہے جس کا ثبوت بھارت کو تین سال کے لیے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب کر لیا گیا ہے۔ بھارت نے ایشیا پیسیفک کی چار سیٹوں پر سب سے زیادہ 193 میں سے 188 ووٹ حاصل کیے جب کہ بھارت کے علاوہ ان نشستوں کے لیے بحرین، فجی اور بنگلا دیش منتخب ہوئے۔ بھارت کے انتخاب پر پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک ٹویٹ کے ذریعے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے کے باوجود بھارت کو اس عہدے کے لیے منتخب کرنا میعار کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے عالمی اداروں کا چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ بین الاقوامی اداروں کو بھارت اور اسرائیل مل کر چلا رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں بھارت کا انسانی حقوق کونسل کارکن منتخب کیا جانا اس صدی کا بڑا لطیفہ ہے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے انسانی حقوق کمیشن نے انچاس صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جا ری کی تھی جس میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا تفصیل سے ذکر کیا گیا تھا۔ اسی رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک بین الاقوامی کمیشن کے قیام کی ضرورت پر زورد یا گیا تھا۔ بھارت نے اس رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کیا تھا کہ اس سے تعصب ٹپک رہا ہے۔ تعصب کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا کہ اس وقت انسانی حقوق کمیشن کی سربراہی ایک مسلمان کے پاس تھی۔
سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کمیشن کے اعلیٰ عہدیدار کی وڈیو کلپ وائرل ہو گئی ہے جس میں وہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین اور بچوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتا ہے اور محفل پرزور تالیوں سے اس انسان دوستی کا خیرمقدم کرتی ہے۔ تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوئٹرس مقبوضہ کشمیر کے حالات پر تشویش کا اظہا کر چکے ہیں اور پیلٹ گن جیسے مہلک اور غیر انسانی ہتھیاروں کے استعمال سے منع کرچکے ہیں۔ ایک ماہ بھی نہیں گزرا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کے ایوانوں میں بھارت کی کارستانیوں کا پردہ چاک کر چکے ہیں اور بھارت اس کا دفاع کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ اس کے باجود بھارت کو انسانی حقوق کمیشن کا سربراہ بنانا انسانیت اور انسانی اقدار کی موت سے کم نہیں۔
بھارت کی سات لاکھ فوج تین دہائیوں سے مقبوضہ وادی کشمیر کو ایک قتل گاہ بنائے ہوئے ہے۔ ایک لاکھ کے قریب افراد شہید کیے جا چکے ہیں۔ دس ہزار سے زیادہ لاپتا ہیں۔ ہزاروں زخمی گھروں اور اسپتالوں میں پڑے ہیں۔ پیلٹ گن کے باعث سیکڑوں افراد بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ بھارتی فوج کا سب سے بڑا ہدف ٹین ایجر لڑکے ہیں جو پرامن انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں مگر فوج انہیں براہ راست فائر کا نشانہ بناتی ہے۔ فوج کے ان مظالم نے سات سو نئے قبرستان آباد کیے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب مقبوضہ کشمیر میں کسی نہ کسی نوجوان کا لاشہ نہ گرتا ہو۔ طرفہ تماشا یہ بھارت ان مظالم کو دنیا کے سامنے آنے سے روکنے کے لیے انسانی حقوق کے اداروں اور آزاد میڈیا کو بھی وادی کے اندر رسائی دینے پر تیار نہیں۔ ظاہر ہے کوئی جرم ایسا ہے جس کی بھارت پردہ پوشی چاہتا ہے؟۔ اب یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ اگر دنیا کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم آبھی جائیں تو تب بھی کچھ ہونے والا نہیں کیوں کہ مغرب نے بھارت کے مذہب کی وجہ سے اسے ممتاز مقام دے رکھا ہے اور اس ’’خوبی‘‘ نے بھارت کی تمام خامیاں چھپا رکھی ہیں۔ دنیا میں انسانی حقوق کا بدترین قتل عام کرنے والے ملک کو انسانی حقوق کی محافظت کا کام سونپنا خود فریبی ہے اور اس سے عالمی نظام اور اداروں سے مسلمان دنیا کا اعتماد اُٹھ رہا ہے۔ بھارت کے سر پر انسانی حقوق کی پاسداری اور اقدار کے فروغ وتحفظ کا تاج سجانے کے بعد اب اسرائیل کے سر پر بھی کسی بڑے منصب کا سہرہ سجا دینا چاہیے تاکہ مسلمان دنیا کو عالمی نظام میں اپنی حقیقت اور حیثیت کا بخوبی اندازہ ہو سکے۔