الزامات تردید اور تصدیق

316

قومی احتساب بیورو کے سربراہ نے جس روز وزیراعظم سے ملاقات کی اسی روز ملک کے سیاسی اور پارلیمانی امور پر نظر رکھنے والوں نے کہا تھا کہ معاملات خرابی کی طرف جارہے ہیں۔ اس ملاقات کے بارے میں کوئی خبر تو علیحدہ سے جاری نہیں ہوئی لیکن وزیراعظم کا یہ کہنا ہے کہ نیب اپنی کارروائیوں میں تیزی پیدا کرے، خاصا معنی خیز تھا۔ اس کے بعد نیب کی کارروائیوں میں تیزی آگئی اور اتنی تیزی آئی کہ اسپیکر کو شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد بتایا گیا کہ ہم نے شہباز شریف کو گرفتار کرلیا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ مجھے بلایا کسی اور کیس میں تھا اور گرفتاری کسی اور کیس میں کی گئی ہے، جس روز وزیراعظم نے نیب کے ڈی جی سے ملاقات کی اس کے بعد ان کا بیان آیا کہ نیب میرے ماتحت ہو تو 50 مرغے جیل میں ہوں گے۔ یعنی نیب کو استعمال کرکے وزیراعظم 50 افراد کو جیل میں ڈالنے کا منصوبہ رکھتے ہیں، اس کے بعد کے واقعات نیب کی تیز رفتاری اور گرفتاریوں کی رفتار میں اضافہ بتارہا ہے کہ نیب اور حکومت میں کوئی تعلق ہے، کسی معاملے کی تصدیق کرنی ہو تو صرف یہ دیکھیں کہ حکومت کیا کہتی ہے۔ اس معاملے میں حکومت نے بار بار یہی کہا ہے کہ ہمارا نیب سے کوئی تعلق نہیں۔ وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ شریف خاندان کی گرفتاریوں سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، یہاں تک کہ پاک فوج کے ترجمان نے بھی کہہ دیا کہ فوج کا احتساب کے عمل سے کوئی تعلق نہیں۔ اور جب تواتر سے سرکاری تردیدیں سامنے آئیں تو اس کا یہی مطلب لیا جاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ معاملہ ہے جس کی تردید کی جارہی ہے۔ لیکن تردید کا کیا ہے وہ خود ڈونکی کنگ بنانے والوں نے بھی کی ہے کہ اس فلم کا موجودہ حکومت سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہماری قوم اور سماجی رابطے کے ذرائع یا سوشل میڈیا تو اس کام میں یدطولیٰ رکھتے ہیں لہٰذا آپ تردید کرتے رہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی چیز زبان زد عام ہوجائے تو اسے اسی طرح مختلف حکومتی تحقیقات یا حکومتوں سے ملایا جاتا ہے۔ یہ واقعہ تو سنا ہی ہوگا کہ ایک مرتبہ ہندوستان میں پولیس والوں نے ایک صحافی کو پکڑ لیا اور کہا کہ تم نے سرکار کو کرپٹ، بدمعاش اور نااہل کہا ہے۔ پہلے تو صحافی کہتا رہا کہ آپ غلط سمجھے ہیں، پھر کہا کہ میں نے کیا ہے لیکن ہند کی سرکار کا نام تو نہیں لیا۔ اس پر پولیس والوں نے کہا۔۔۔ خاموش رہو۔۔۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ کون سی سرکار کرپٹ، بدمعاش اور نااہل ہے۔ اب آپ اسے ڈونکی کنگ سے خوامخواہ نہ ملائیں، دراصل سازش یہ ہوئی ہے کہ ڈونکی کنگ غلط وقت پر ریلیز کی گئی ہے۔ ورنہ اس کا اور حکومت کا کوئی تعلق نہیں، ایک جیسے کام تو بیک وقت کئی لوگ کررہے ہوتے ہیں، ہر کوئی تو ایک ساتھ نہیں ہوتا۔ اب اسحق ڈار صاحب کی سیاسی پناہ کے بارے میں پارٹی کہہ رہی ہے کہ ایسا نہیں ہوا ہے وہ تو صحت کی بنیاد پر برطانیہ میں مقیم ہیں۔ لیکن برطانوی ویزہ قوانین کہتے ہیں کہ کوئی شخص وزٹ ویزا پر 6 ماہ سے زیادہ برطانیہ میں قیام نہیں کرسکتا۔ اب اس تردید سے یہ خبر نکلی ہے کہ ڈار صاحب یا تو برطانوی شہریت کے حامل ہیں یا پھر سیاسی پناہ کی درخواست دے چکے۔ تو آپ کس کی خبر کو اور کس کے دعوے کو درست مانیں گے۔ علی ڈار نے کہا ہے کہ والد صاحب پاسپورٹ ضبط ہونے کے حوالے سے بات کرنے برطانوی دفتر گئے تھے۔ لیکن یہ برطانیہ ہے پاکستان نہیں۔ اگر کوئی عام پاکستانی پاسپورٹ کے بغیر برطانیہ میں ملے تو اسے پاکستان بھجوادیا جاتا ہے۔ اب آپ چاہیں تو الزام گوروں پر لگادیں کہ خود روک رکھا ہے، اس میں شک نہیں ہونا چاہیے 6 لاکھ پاؤنڈ کسی کے گھر سے خود نکالیں اور منی لانڈرنگ کا ثبوت نہ ملے۔ تو اس سے اچھی تو پاکستانی پولیس ہے، ہر چیز کا ثبوت گرفتاری سے پہلے لے کر آتی ہے، اسکاٹ لینڈ یارڈ کی مٹی پلید کردی۔ ویسے اس کی پاکی کے بارے میں بھی کوئی سند نہیں۔ بہرحال یہ تو پاکستان کے ایک اور طاقتور ادارے نیب کا معاملہ ہے اس نے پاسپورٹ منسوخ کرادیا ہے۔ انٹرپول کے ذریعے وطن واپس لانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ جائداد نیلام کرنے کا حکم لے لیا ہے۔ تو یقیناًوہ اسحق ڈار کو لے بھی آئیں گے لیکن حکومت کے ایک مشیر شہزاد اکبر نے خود کہا ہے کہ ہمیں میڈیا کے ذریعے اطلاع ملی ہے کہ اسحق ڈار نے درخواست دے دی ہے۔ ارے حکومت کیا کررہی ہے، چند گھنٹوں میں برطانوی وزارت داخلہ سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا ڈار صاحب نے سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے، لیکن شہزاد اکبر صاحب میڈیا کے ذریعے ملنے والی خبر کی تکرار کررہے ہیں۔
ایک الزام، ایک خبر اس کی تردید۔ آئی ایم ایف نہیں جائیں گے، آئی ایم ایف جانا پڑے گا، جائیں گے تو مشورہ کریں گے، پھر خبر آئی کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑے گا، لیکن یہ خبر جاری اور شائع ہونے کے وقت پاکستانی وفد انڈونیشیا جاچکا تھا۔ پھر ایک خبر آئی کہ آئی ایم ایف کو سی پیک سمیت تمام قرضوں کی تفصیل دینی ہوگی، پھر اس کی بھی تردید آگئی، اور اب پھر سب خبروں کی تردید۔ شاید آئی ایم ایف نہ جانا پڑے۔ یہ شاید ایسے ہی ہے جیسے شاید پاکستانی عوام کے مسائل کبھی حل ہوجائیں گے۔ مگر اس خبر کی تصدیق یا تردید بھی آنے والے دنوں میں ہوجائے گی۔ وزیراعظم سعودی عرب جا کر اس شاید کو یقین میں بدلنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، کچھ رقم وہاں سے مل جائے اور کچھ اس سے جس کے قرضوں کی تفصیل چھپاتی ہے۔ جی ہاں چین سے قرضوں کی تفصیل ہی چھپانا ضروری ہے اس لیے وہ دوست ممالک مدد کریں گے جو چین کے قرضوں کو پاکستانی قوم سے بھی مخفی رکھنا چاہتے ہیں۔ تو پھر شاید آئی ایم ایف نہ جانا پڑے۔ کیوں کہ سب مل کر تفصیل چھپائیں گے۔