’’جانے کی باتیں جانے دو‘‘

284

پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے لندن میں اخبار نویسوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا افغانستان سے نہ جائے۔ اس کے بعد دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھی اسی موقف کا اعادہ کچھ اس انداز سے کیا کہ امریکا افغانستان میں استحکام تک انخلا نہ کرے۔ میجر جنرل آصف غفور کا بیان خطے کی طاقتور فوج کا موقف ہے وہ فوج جو خطے میں کم وبیش دو عشروں سے زیادہ عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور پہ در پہ فوجی آپریشنوں کے ذریعے تاریخی اعتبار سے خطرناک ترین علاقوں میں دہشت گردی کو شکست دے کر ایک ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ میجر جنرل آصف غفور کا ایک جملہ سیاق وسباق سے ہٹ کر رپورٹ ہوا ہے تو اب اسے سیاق وسباق کے ساتھ پیش کیا جانا ضروری ہے اگر ان کا مقصد یہی ہے کہ امریکا افغانستان سے اپنی فوج نہ نکالے تو اس کی منطق کیا ہے اس بات کی وضاحت ہونی چاہیے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوحہ میں طالبان اور امریکی نمائندوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد طالبان نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ امریکا افغانستان سے مکمل فوجی انخلا پر بات چیت کرنے پر آمادہ ہوا ہے۔ اس بیان کی امریکا کی جانب سے کوئی تردید نہیں ہوئی۔ اس طرح یہ بات بڑی حد تک واضح ہوگئی ہے کہ امریکا اب افغانستان میں فتح مند ہونے کا خواب دیکھنا چھوڑ چکا ہے۔ اسے مزید کسی بڑی کامیابی اور معجزے کی امید نہیں رہی اس لیے وہ افغان سرزمین سے بوریا بستر سمیٹنا چاہتا ہے مگر اس کے لیے وہ اپنی باوقار رخصتی چاہتا ہے تاکہ اسے سوویت یونین کی طرح ماتھے پر شکست کا داغ سجانا نہ پڑے۔
پاکستان میں عمومی طور پر یہ تاثر رہا ہے کہ امریکا کی افغانستان میں آمد نے افغان مسئلے کو حل کرنے کے بجائے پیچیدہ تر کیا۔ اس پیچیدگی کا ایک ثبوت افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا اثر رسوخ اور بھارتی قونصل خانوں کے نام پر پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سرپرستی ہے۔ پاکستان میں یہ تاثر بھی رہا کہ افغانستان میں امریکا کی فوجی موجودگی نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے لیے خطرہ ہے۔ طالبان اور پاکستان کے موقف میں نقطۂ اتصال غیر ملکی فوج کا انخلا ہی تھا گوکہ پاکستان نے کبھی کھل کر یہ بات نہیں کی اور اس کے لیے افغان سیاسی مفاہمت کا لفظ ہی استعمال کیا۔ اب جب کہ اچانک امریکا کی طرف سے انخلا کے اشارے ملنا شروع ہوگئے تو پاکستان نے امریکا سے افغانستان سے نہ نکلنے کی درخواستیں کردیں۔ یہ طالبان کی سترہ سالہ قربانیوں اور جدوجہد پر پانی پھیرنے والی بات ہے۔ اس سے پاکستان دوبارہ وہی غلطی کر رہا ہے جو سوویت یونین کے انخلا کے وقت امریکی ایماء پر کی گئی تھی۔ جب پاکستان نے اپنے افغانستان کے بڑے جہادی گروپوں پر مشتمل حکومت قائم کرنے کے بجائے امریکی دباؤ پر نئے تجربات کی ٹھان لی تھی۔ اس سے افغانستان میں خانہ جنگی کا لاوہ پھٹ پڑا تھا اور پھر یہ لاوہ کبھی کنٹرول نہ ہو سکا۔ عین ممکن ہے پاکستان کے ذمے دار یہ کہنا چاہتے ہوں کہ افغانستان میں مضبوط سیاسی حکومت اور نظام قائم کیے بغیر امریکا افغانستان سے فرار کا راستہ نہ اپنائے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے سوویت یونین نے افغانستان کو جوں کا توں چھوڑ کر بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی تھی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ سوویت فوج کے خلا کو کابل حکومت پر کرنے میں ناکام ہوئی تھی۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ سوویت یونین جنگ کا مرکزی کردار تھا۔ سوویت فوج کی آمد نے ہی افغانستان میں عسکریت کو مضبوط بنیاد اور جواز فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اس لیے سوویت یونین کے تنازع حل کرنے کی صلاحیت محدود اور کمزور تھی آج کے افغانستان میں کچھ یہی پوزیشن امریکا کی ہے۔
امریکا افغانستان میں مسئلہ ہے اور مسئلہ کبھی حل نہیں بنتا۔ سترہ سال سے افغانستان میں جو سیاسی نظام قائم وہ امریکیوں کی ہی فکر رسا، امداد اور تعاون کا مرہون منت ہے۔ امریکا نے مسئلہ حل کرنے کا یہی انداز مناسب سمجھا اور سترہ سال سے وہ اسی راہ پرگامزن ہے۔ یہی وہ معاملہ ہے کہ جو سترہ برس سے وجہِ نزع بن کر رہ گیا اور مسئلہ حل ہونے کے بجائے اُلجھتا جا رہا ہے۔ اب امریکا نے افغانستان سے رخصتی کا فیصلہ کیا ہے تو اسے ابھی سے ایک مستحکم سیاسی نظام اور قومی اتفاق رائے کی حکومت کے قیام کی کوششیں توکرنی چاہیے مگر امریکا تنہا یہ کام نہیں کر سکتا۔ افغانستان میں سیاسی مفاہمت اور اتحادی افواج کے انخلا سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کا کام کسی اور سونپنا ہوگا۔ اقوام متحدہ امن فوج کے ذریعے اس کام کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ اس کام میں پاکستان، سعودی عرب، ایران اور وسط ایشیائی ممالک سے مدد لینی چاہیے۔ امریکی فوج یونہی افغانستان سے بھاگ کھڑی ہوگی تو اس خلا کو طاقت کے ذریعے پر کرنے کی کوششیں ہوں گی یوں افغانستان میں امن کے قیام کی منزل دور ہوتی چلی جائے گی۔ اس مرحلے پر پاکستان کو یہ بات واضح کرنی چاہیے کہ وہ افغانستان میں مزید کچھ عرصے کے لیے امریکی فوج کی موجودگی چاہتا ہے تو کیوں؟۔
یہ ایک عجیب مخمصہ ہے کہ ایک طرف آپ ان طالبان کو مارنے کے بجائے حقیقت کے طور پر تسلیم کرنے اور ان کے عسکری کردار کو سیاسی کردار دے کر مسئلہ حل کرنے کی حمایت کرتے رہے جو غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا چاہتے ہیں دوسری طرف آپ مکمل انخلا کی مخالفت کرکے خود اپنے موقف کے تضاد کو واضح اور گہرا کر رہے ہیں۔ یہ تو صریح ’’وہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا‘‘ والی بات ہوئی۔ یہ سترہ سالہ تاریخ کے اہم ترین موڑ پر وقت، حالات اور تاریخ کی غلط سمت میں کھڑا ہونے کے مترادف ہے۔ افغانستان کے ستر فی صد علاقے پر کنٹرول رکھنی والی ایک لہر کو خواہ مخواہ اپنے مدمقابل کھڑا کرنے کی حکمت عملی ہے۔ ماضی میں سوویت انخلا کے وقت ہمارے مخمصوں اور مصلحتوں نے ہمیں رفتہ رفتہ تاریخ کی غلط سمت میں کھڑا کیا تھا۔ ہم دو اہم جماعتوں کو ملا کر مخلوط حکومت قائم کرنے کا مطالبہ چھوڑ کر ٹیسٹ ٹیوب لیڈروں کی تلاش اور تراش خراش کے کام میں جُت گئے تھے اور یوں حالات کی باگیں ہمارے ہاتھوں سے چھوٹتی چلی گئی تھیں۔