روحانیت، سیاسی اسلام اور سیاستِ دوراں

534

ہمیں باضابطہ لکھتے پڑھتے ہوئے اب 30 سال سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ اس عرصے میں لکھنے پڑھنے والوں کی عظیم اکثریت کو ایک مشترکہ مسئلے سے دوچار پایا اور وہ یہ کہ لکھنے پڑھنے والوں کو زندگی اور علوم و فنون کے بارے میں ثانوی باتیں تو معلوم ہوتی ہیں مگر بنیادی باتیں معلوم نہیں ہوتیں۔ چناں چہ ان کا ثانوی باتوں کا علم بھی بیکار ہوجاتا ہے اور ساری زندگی اکارت چلی جاتی ہے۔ جاوید غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم کا حالیہ کالم اس کی ایک بہت اچھی مثال ہے۔ کالم کا عنوان ہے روحانیت، سیاسی اسلام اور سیاست دوراں۔ یہ کالم روزنامہ دنیا میں 6 اکتوبر 2018ء کے روز شائع ہوا ہے۔
خورشید ندیم نے اپنے کالم میں تصوف کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا۔
’’تصوف کو عام طور پر مذہب کی روحانی جہت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ سیاست میں مذہب کے کردار کا بیان ہے، یوں یہ سیکولر ازم اور مذہب کی بحث بن جاتی ہے اور اس کا تقابل عقلیت پسندی (Rationalism) سے کیا جاتا ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سیاست کی تشکیل اور روحانیت دو مختلف موضوعات ہیں جو خلط مبحث کا شکار ہوگئے ہیں‘‘۔
خدا جانے خورشید ندیم نے کہاں سے سن یا پڑھ لیا کہ تصوف مذہب کی روحانی جہت ہے۔ ارے بھئی اسلام میں تو کھانا پینا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، شوہر و بیوی کے تعلقات، رزق حلال کمانا، بچے پالنا بھی مذہب کی روحانی جہت سے تعلق رکھتا ہے بلکہ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ مومن کا سونا بھی عبادت میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن غامدی صاحب اور ان کے شاگرد کے یہاں روحانیت کا ایسا کال پڑا ہوا ہے کہ انہیں روحانی جہت نظر آتی ہے تو تصوف میں۔ حدیث قدسی کے مطابق اسلام کے تین درجے یا مراتب ہیں۔ اسلام، ایمان اور انسان۔ تمام اکابر صوفیہ کے نزدیک تصوف کا تعلق مرتبۂ احسان سے ہے۔ احسان کا مطلب ’’حُسن کاری‘‘ یعنی کسی چیز کو Beautify کرنا ہے۔ رسول اللہؐ کا فرمان ہے ’’اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے‘‘۔ چناں چہ اسلام کہتا ہے کہ جب کافروں سے بحث کرو تو بہترین طریقے سے بحث کرو۔ نماز پڑھو تو اس طرح گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو یا کم از کم اس طرح گویا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ رہنمائی اسی لیے ہے تا کہ نماز خوبصورت یا جمیل ہوجائے۔ یہاں تک کہ اسلام کہتا ہے کہ صبر بھی کرو تو جمیل صبر کرو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کے ہر فعل میں اعلیٰ ترین درجے کا جمال ہوتا تھا۔ یہی تصوف کی روح ہے، یہی مرتبۂ احسان ہے، ہمارے اکابر صوفیہ نے تصوف کو اس طرح بھی بیان کیا ہے کہ تصوف طریقیت ہے جو شریعت کا جلال و جمال ہے۔ چناں چہ اکابر صوفیہ نے دو دائرے بنائے ہیں، ایک بڑا دائرہ شریعت کا اور اس کے اندر ایک چھوٹا دائرہ طریقت کا۔ صوفیہ کہتے ہیں جو طریقت سے گرا وہ شریعت کے دائرے میں گرا اور جو شریعت کے دائرے سے باہر ہوا وہ راندۂ درگاہ ہوا۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ طریقت الگ سے کوئی چیز نہیں بلکہ وہ شریعت کا جمال یا اس کی Intensification ہے۔ چناں چہ صوفیہ کے نزدیک جو کمال کے مرتبے سے گر جاتا ہے، جو کمال کے درجے سے نیچے لڑھک جاتا ہے وہ بہرحال شریعت ہی کے دائرے میں رہتا ہے۔ البتہ جو شریعت کے دائرے سے نکل گیا وہ گمراہ اور برباد ہوگیا۔ حضور والا یہ تصوف کا خلاصہ ہے۔
خورشید ندیم صاحب کے مذکورہ بالا اقتباس میں عقلیت یا Rationality کی اصطلاح بھی استعمال ہوئی ہے اور انہوں نے یہ تاثر دیا ہے کہ اسلام میں ایک روحانی جہت رکھنے والی تحریک ہے اور ایک تحریک عقلیت پسندی یا Rationality کی تحریک ہے۔ افسوس کہ خورشید ندیم صاحب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اسلام کی فکری کائنات میں عقلیت پسندی کا کبھی کوئی وجود ہی نہیں رہا اور جس وقت اسلام میں عقلیت پسندی کی تحریک برپا ہوئی تو اس کا ہمارے داخلی نظام فکر سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ یہ تحریک یونانی فلسفے کے اثرات کا نتیجہ تھی۔ اسلام میں ایمان ہر چیز کی بنیاد ہے اور ایمان اپنی اصل میں ایمان بالغیب ہے۔ یعنی ان باتوں پر ایمان جو ہماری عقل کے دائرے سے باہر ہیں۔ مثلاً وجود باری تعالیٰ، حیات بعدالموت، جنت و دوزخ کا وجود، فرشتے وغیرہ۔ یہ وہ امور ہیں کہ اگر مخبر صادق رسول اکرمؐ کو وحی کے ذریعے ان چیزوں کی اطلاع نہ دی گئی ہوتی تو ہم عقل کے ذریعے ان اہم ترین باتوں سے آگاہ ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام میں عقل کا کوئی مقام نہیں۔ اسلام میں عقل کا مقام بہت بلند ہے مگر عقل کو ہدایت یہ ہے کہ وہ وحی کی رہنمائی یا وحی کی روشنی میں کام کرے۔ یونانی فلسفے نے ابن رشد اور ابن سینا جیسے لوگوں میں جو ہولناک خرابی پیدا کی وہ یہ تھی کہ یہ لوگ عقل پر وحی کی بالادستی کے قائل نہیں رہ گئے تھے، چناں چہ امام غزالی کو میدان میں آنا پڑا اور غزالی نے تن تنہا یونانی فلسفے کا رد تخلیق کیا۔ غزالی نے کمال یہ کیا کہ انہوں نے صرف مذہبی بنیادوں پر یونانی فلسفے کو رد کرکے نہیں دکھایا بلکہ انہوں نے فلسفے کو عقلی بنیادوں پر بھی ناقص، غیر مربوط یا Incoherent ثابت کرکے ایسا رد کیا کہ مسلم دنیا میں فلسفے کا بیج ہی مار دیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عقلیت پسندی کا تعلق صرف مغربی فکر سے ہے۔ مسلمانوں کے کسی بھی طبقے کو عقلیت پسندی کے اصل معنوں میں عقل پسند کہنا درست نہیں، سوائے ان طبقات کے جو مغربی فلسفے کی روایت کی زد میں آکر گمراہ ہوگئے۔ خواہ وہ غزالی کے زمانے کے ابن رشد اور ابن سینا ہوں یا 19 ویں صدی کے سرسید ہوں یا ہمارے زمانے کے غلام احمد پرویز اور غامدی صاحب ہوں۔ خورشید احمد ندیم کا خیال شاید یہ ہے کہ صوفیہ یا ان کے مطابق ’’روحانی جہت‘‘ کے حامل لوگوں کے یہاں عقل کچھ کم پائی جاتی ہے۔ ہمیں اس بات پر بھی سخت حیرت ہے۔ اس لیے کہ غزالی، رومی، ابن عربی، مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے یہاں ’’تعقّل‘‘ کی ایک ایسی سطح پائی جاتی ہے جس کے آگے مغربی فلسفہ بچوں کا کھیل معلوم ہوتا ہے۔ مغربی فلسفہ اپنی پیچیدگی، تضادات اور انحرافات کی وجہ سے ’’مشکل‘‘ ہے۔ اس کے برعکس غزالی، رومی، ابن عربی، مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ اپنی ’’بلند سطح‘‘ کے اعتبار سے مشکل ہیں۔ دونوں کا فرق صاف ظاہر ہے۔
خورشید ندیم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ بیسویں صدی میں کچھ اہل علم نے جدید انسان کو درپیش سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات کو نظاموں کے تناظر میں دیکھا اور ان کا اسلامی حل پیش کیا۔ خورشید ندیم کے الفاظ میں جدید مسائل کے حل کے حوالے سے سامنے والی اسلامی فکر کو ’’تفہم کے لیے سیاسی اسلام کے نام سے ممیز کیا جاتا ہے‘‘۔
خورشید ندیم کا یہ فقرہ بھی علمی، تاریخی اور فکری اعتبار سے غلط ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ’’سیاسی اسلام‘‘ کا کوئی وجود تھا نہ ہے اور نہ ہوگا۔ سیاسی اسلام مغرب کی وضع کردہ اصطلاح ہے اور مغرب نے یہ اصطلاح اسلام کی ’’تفہیم‘‘ کے لیے نہیں اسلام کو مسخ اور بدنام کرنے کے لیے وضع کی ہے۔ مگر مغرب اسلام کو صرف ایک اصطلاح کے ذریعے بیان نہیں کرتا اس نے اسلام کی بیخ کنی کے لیے اسلام پر کئی نام چسپاں کر رکھے ہیں۔ مثلاً سیاسی اسلام، روایتی اسلام، صوفیوں کا اسلام، بنیاد پرست اسلام، دہشت گرد اسلام، جدید اسلام، سیکولر اسلام، لبرل اسلام، روشن خیال اسلام۔ خورشید ندیم نے ان ناموں میں سے ایک نام اٹھا کر اسلام کے سر پر دے مارا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی مغرب کی طرح ’’سیاسی اسلام‘‘ کو نشان زد کرکے اسے اقبال یا مولانا مودودیؒ کی ’’ایجاد‘‘ باور کرانا چاہتے ہیں۔ یہ محض خیال آرائی نہیں۔ خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے اسلام کو نظاموں کے تناظر میں بیان کرنے کی علمی تحریک کو آگے بڑھایا اور اسلام کو ایک طرزِ حیات باور کرایا۔
خورشید ندیم کے بقول مولانا کی تحریک ایک علمی اور عقلی مقدمہ (Discourse) ہے۔ بلاشبہ مولانا نے اسلام کو نظاموں کے تناظر میں دیکھا اور اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات ثابت کیا ہے اور بلاشبہ ان کی تحریک ایک ’’علمی تحریک‘‘ ہے مگر مولانا کی فکر ان معنوں میں عقلی یا Rational نہیں ہے جن معنوں میں مغرب عقل کو دیکھتا اور بیان کرتا ہے۔ مولانا کے ایک ایک لفظ کی پشت پر وحی اور صاحب وحی کی فکر کی بالادستی کا تصور موجود ہے اور مولانا بس اتنے ہی عقل پسند یا Rationalist ہیں جتنا اسلام کسی مسلمان کو عقلی یا Rational ہونے کی اجازت دیتا ہے۔
خورشید ندیم نے مولانا کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ تصوف کے قائل ہیں وہ تصوف کے اس معروجہ تصور کے ناقد ہیں جو کشف و الہام اور کرامات سے عبارت ہے۔ خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ مولانا نے شیخ احمد سرہندی یعنی مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے کام کی بہت تحسین کی ہے مگر یہ بھی کہا ہے کہ یہ لوگ تصوف کے باب میں مسلمانوں کی بیماری کا صحیح ادراک نہ کرسکے۔ چناں چہ انہوں نے اہل اسلام کے لیے وہی غذا تجویز کردی جس سے پرہیز لازم تھا۔
مولانا کو تصوف کا دشمن باور کرایا جاتا ہے۔ شکر ہے خورشید ندیم نے یہ زیادتی نہیں کی مگر انہوں نے مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کو ایک صف میں کھڑا کرکے انہیں مولانا مودودی سے جس طرح بھڑایا ہے وہ کئی اعتبار سے محل نظر ہے۔ عام انسانوں کی فکر ہی پر نہیں عظیم لوگوں کی فکر پر بھی عصر کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مولانا مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے عہد میں ہوتے تو وہی کہتے اور کرتے جو مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ نے اپنے عہد میں کیا۔ اس کے برعکس اگر مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کو نظاموں کی کشمکش کا وہ زمانہ ملا ہوتا جو مولانا کو میسر آیا تو مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ وہی کچھ کرتے جو مولانا نے کیا۔ ہمارے زمانے میں تصوف پر سب سے بڑا اعتراض اقبال نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ تصوف مسلمانوں کو بے عمل بناتا ہے اس لیے غلط ہے۔ تصوف کی ’’مروجہ صورت‘‘ پر مولانا کا اعتراض بھی یہی ہے۔ مگر کسی بھی چیز کی ’’مروجہ صورت‘‘ اس کی اصل صورت نہیں ہوتی۔ حکمت ایک زبردست شعبہ ہے مگر اس میں ’’نیم حکیم‘‘ ہمیشہ موجود رہے ہیں اور نیم حکیم کو خطرہ جان کہا جاتا ہے۔ ملّا ہماری تہذیب اور تاریخ کا مرکزی کردار ہے مگر ’’نیم ملّا‘‘ ہر عہد میں موجود رہے ہیں اور نیم ملّا کو خطرہ ایمان کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں اور ہومیوپیتھ میں نیم ڈاکٹر اور نیم ہومیوپیتھوں موجود ہیں غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے میں ’’جعلی لوگ‘‘ موجود ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ تصوف بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ مگر چند جعلی صوفیوں کی وجہ سے اصل صوفیوں کو بُرا نہیں کہا جاسکتا۔ جس طرح معجزہ نبوت کا جزو لاینفک ہے اسی طرح کرامت ولایت کا ناگزیر حصہ ہے۔ مگر جس طرح انبیا نے کبھی معجزے کو ’’نمائشی شے‘‘ نہیں بنایا اس طرح اولیا یا بڑے صوفیہ نے کبھی کرامت کو مذاق نہیں بنایا اور جو شخص ایسا کرتا ہے اسے شعبدے باز سمجھا جاتا ہے۔ حلاج پر جنید بغدادی کو جو اعتراضات تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے کرامتوں کو نمائشی چیز بنادیا تھا۔ چناں چہ اگر مولانا کو کرامات اور کشف و الہام کو تماشا بنانے والوں پر اعتراض تھا تو بالکل درست تھا مگر ہماری نظر سے مولانا کی کوئی ایسی تحریر نہیں گزری جس میں مولانا نے کرامت یا کشف و الہام کا انکار کیا ہو۔ مولانا سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کسی ولی سے ملے ہیں، مولانا نے کہا جی ہاں ریلوے اسٹیشن کے ایک قلی کو ایک بار میں نے زیادہ پیسے دینے چاہے تو اس نے مقررہ معاوضے سے زیادہ رقم لینے سے انکار کردیا۔ میری نظر میں وہ ایک ولی تھا۔ مولانا کی اس تعریف کو تسلیم کرلیا جائے تو مولانا خود ایک صاحب کرامت ولی تھے۔ مولانا نے عالم اسلام پر جو غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں وہ کرامت نہیں تو اور کیا ہے؟ مولانا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ خدا مرکز اور اسلام مرکز تھا۔ ایک ولی کی زندگی اس کے سوا کیا ہوتی ہے! مولانا کو کبھی دنیا کی طرف مائل نہیں دیکھا گیا، ایک بڑے صوفی کی ایک پہچان یہی ہے۔