لمس کا نیا کارنامہ

576

سماجی ذرائع ابلاغ ( سوشل میڈیا) پر ایک بہت خطرناک اور گمراہ کن خبر گشت کررہی ہے جس کے مطابق پاکستان کی بڑی جامعات میں شمار ہونے والی جامعہ ’’لمس‘‘ (لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز) کے طلبہ طالبات کو قادیانیوں کے گڑھ ربوا کا دورہ کرایا گیا تاکہ قادیانیوں اور احمدیوں سے اظہار یکجہتی کیا جائے۔ اس دورے کی تصویریں بھی جاری کی گئی ہیں جن میں طالبات مخصوص قادیانی پردے میں ملبو س ہیں ۔ 7اکتوبر کو ہونے والا یہ دورہ لمس کے طلبہ کی قائم کردہ تنظیم رنگ (RUNG) نے ترتیب دیا جس کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کے اقلیتی طبقے میں امن، برداشت، اور قبولیت کو فروغ دینے کے لیے کام کررہی ہے۔ اس پروجیکٹ کی قیادت لمس کے اسسٹنٹ پروفیسر اور گانے والا تیمور رحمن کررہاہے جس نے گانے والوں کا ایک بینڈ لال کے نام سے بنا رکھا ہے۔ وہ پڑھاتا بھی ہے اور گانے بجانے کا درس بھی دیتا ہے۔ اپنی فیس بک پوسٹ میں وہ لکھتا ہے کہ ’’ایسے ماحول میں جہاں انتہا پسند تنظیمیں نفرت پھیلا رہی ہیں، میرے طلبہ احمدیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ربوا گئے تھے۔ خبر میں احمدیوں کو اسلام کی ایک ایسی شاخ قرار دیا گیا جسے پاکستانی قانون نے بدعتی اور بدعقیدہ (Heretic)قرار دیا ہے۔ جب کہ احمدی اور قادیانی بدعقیدہ یا ملحد نہیں بلکہ اسلام سے خارج اور غیر مسلم قرار دیے گئے ہیں۔ مگر احمدیوں اور قادیانیوں کا اصرار ہے کہ صرف وہ ہی مسلمان ہیں باقی کوئی مسلمان نہیں بلکہ قادیانی فرقے کے بانی غلام قادیانی نے اپنے اوپر ایمان نہ رکھنے والوں کے لیے انتہائی نفرت انگیز اور بے ہودہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ الفاظ غلام قادیانی اور اس کے جانشینوں کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اپنے سوا دوسروں کو کافر اور رنڈی کا بچہ کہنا کیا برداشت، تحمل اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کا عمل ہے ؟ قادیانیوں اور احمدیوں نے اپنے جھوٹے نبی اور اس کے نام نہاد خلفاء کے ان خیالات کی کبھی تردید کی نہ ان سے برأت کا اظہار کیا۔ کیا سارا تحمل، برداشت اور امن مسلمانوں ہی کے لیے رہ گیا۔ لمس کا یہ گویّا تیمور رحمن کون ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ بھی قادیانی ہوگا جو لمس کے طلبہ و طالبات کو گمراہ کررہاہے اور اس میں اسے لمس کی پوری انتظامیہ کا تعاون حاصل ہے۔ لمس کے بارے میں پہلے بھی یہ اطلاعات ملتی رہی ہیں کہ جس استاد نے طلبہ طالبات کو دین اسلام پر راغب کرنے کی کوشش کی اسے کسی بہانے سے نکال دیا گیا۔ حیرت ہے کہ تعلیم کے نام پر ایسی جامعہ بھی پاکستان میں ہے جو قادیانیت اور الحاد کو فروغ دے رہی ہے۔ تیمور لال نے قادیانیت کو اسلام کی ایک شاخ قرار دیا ہے۔ جیسے یہ بھی مسلمانوں کے مختلف مسالک میں سے ایک مسلک ہے اور اسے پاکستانی قانون قرار دیا ہے جب کہ آئین اور قانون انہیں اسلام سے خارج قرار دے چکا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ تیمور لال کو تعلیمی دورے کے لیے ربوا ہی نظر آیا۔ کیا لمس میں کبھی مسلمانوں کے علماء کرام کو اپنے خیالات اور دین اسلام کے نکات بیان کرنے کی دعوت دی گئی۔ کیا کبھی جید علما کرام کو بلا کر قادیانیت اور احمدیت کی حقیقت بیان کرنے کے لیے بلایا گیا ؟ تیمور لال قادیانیت کا پرچار کر رہا ہے ایسے شخص کو چھوٹ دینا خطرناک ہے ۔ اس حوالے سے لمس کی انتظامیہ سے بھی کڑی باز پرس ہونی چاہیے۔ تیمور لال یہ بھی بتائے کہ نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ پر کس نے اور کیوں حملہ کیا تھا جب وہ ٹرین میں سفر کررہے تھے۔ نئی حکومت کی طرف سے قادیانیوں کو نوازنے کے اقدامات سامنے آچکے ہیں چنانچہ اس سے امید نہیں کہ وہ لمس کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی اور تیمور لال اپنا بینڈ بجاتا رہے گا۔