پس آئینہ 99 ہی ہے

304

 

 

 

آج مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے
یہ دور جیسے یارو دور مطالبہ ہے
ہر شخص احتجاجی بینر بنا ہوا ہے
سنا ہے کہ ایک جج کو اس کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ جرم ایک عام انسان کرے تو درگزر کی گنجائش نکل ہی آتی ہے لیکن کوئی اہم عہدے پر فائز کسی جرم کا مرتکب ہو تو گنجائش کیسے نکالی جا سکتی ہے۔ جس کو سزا سنائی گئی اسے تو آٹھ دس ماہ پہلے ہی علم تھا کہ ایسا ہی ہونا ہے بلکہ زندگی کا بھی کوئی بھروسا نہیں۔ جب یہ بھی معلوم ہو کہ سزا لازماً ملے گی اور ممکن ہے کہ جرم کی قیمت جان سے بھی بڑھ کر چکانی پڑے تو پھر ایسے شخص کو صحیح الدماغ کہتے ہوئے ہچکچاہٹ تو لازماً ہوگی۔ ہمیں تو ہچکچا ہٹ بھی ہوئی اور تردد بھی لیکن جس کو معلوم تھا کہ ایسا ہونا ہی ہے وہ نہ تو ہچکچایا اور نہ ہی جھجکا اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی پیچھے پلٹنا گوارہ نہیں کیا۔ مذکورہ شعر آج کا نہیں، یحییٰ کے دور کا ہے جب اس کے دور میں الیکشن کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔ ایوب خان کے آخری دور سے ہی ملک احتجاج کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا اور ہر احتجاج کے بعد حکومتی رد عمل کرفیو کی صورت میں سامنے آیا کرتا تھا۔
آج بھی ملک کا کوئی نہ کوئی شہر کسی نہ کسی احتجاج کی لپیٹ میں نظر آتا ہے۔ ایوبی دور سے لیکر پرویز مشرف کے دور تک یہی دیکھا گیا کہ جو بھی سختیاں ٹوٹیں وہ سب کی سب سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور ان کے کارکنان پر ہی ٹوٹیں۔ تاریخ میں مشرف کے دور میں پہلی بار کسی حکومت کا ہدف عدالتوں کے جج بنے۔ ان کے خلاف حکومت وقت (مشرف) نے ریفرنس دائر کیا، ان کو کام کرنے سے روکا اور نہ صرف روکا بلکہ برطرف کرنے کے بعد مجبور کیا گیا کہ وہ ’’پی سی او‘‘ کے تحت حلف اٹھائیں۔
یہ وہ دور تھا جب ملک کی معروف سیاسی پارٹیوں کا راستہ مسدود کردیا گیا تھا اور ان کے جمہوری حقوق سلب کر دیے گئے تھے۔ جو بول اٹھتا تھا وہ اٹھ جاتا تھا اور جو خاموش تھا وہ سخت نگرانی میں ہوا کرتا تھا۔ کئی مرتبہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس بات کی کوشش کی گئی کہ وہ جمہوری حقوق کے لیے عوام کو باہر نکلنے پر مجبور کریں لیکن ان کی ساری کوششیں سعی لاحاصل ہی رہیں۔ ججوں کے خلاف اٹھائے جانے والے حکومت کے قدم نے پاکستان بھر کے وکلا میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑا دی۔ حکومت ’’آمرانہ جمہوریت‘‘ کی مثل ہی تھی اور حکمرانی بھی پس پردہ سالار ہی کررہا تھا لیکن غم و غصے کا ایک طوفان تھا جس کے آگے بند باندھنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ جلتی پر تیل کا کام یہ ہوا کہ اس احتجاج میں سیاسی و مذہبی پارٹیاں بھی شامل ہو گئیں اور ملک انتہائی مخدوش حالت میں چلا گیا اور ایک سخت گیر حکومت کو بالآخر گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے۔ میں نے اس کو شعری زبان میں کچھ یوں کہا تھا کہ
مظلوموں کے آگے بھی جھکنا پڑجاتا ہے
مغروروں کے دانت بھی اکثر گھٹے ہوتے ہیں
حالات بتا رہے ہیں کہ ہم اسی 99 والے دور ہی میں ہیں۔ اس وقت بھی سرآئینہ کوئی اور ہوا کرتا تھا اور پس آئینہ کوئی اور۔ آج بھی سرآئینہ کوئی اور ہے اور پس آئینہ کوئی اور۔ وہی سارے چہرے جو اس دور میں تھے وہی ساری صورتیں اب بھی ہیں۔ پہلے بھی جن لوگوں کے ہاتھ میں ’’بے اختیاریاں‘‘ تھیں آج بھی وہی لوگ بڑی بڑی ’’بے اختیار وزارتوں‘‘ اور عہدوں پر براجمان ہیں۔ ایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ ہے کہ گزشتہ دور میں سرآئینہ والا بھی دکھائی دیا کرتا تھا اور پس آئینہ کون تھا وہ بھی سب کو معلوم ہوا کرتا تھا لیکن آج سر آئینہ تو بہت صاف صاف نظر آرہا ہے لیکن پس آئینہ کون ہے اس کو صرف محسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
حالات کی شکل و صورت بھی ویسی ہی ہے۔ بے چینی ہے، بے یقینی ہے، ابتری ہے، بحران ہے اور ہر فرد احتجاجی بینر بنا نظر آتا ہے۔ اس کیفیت میں ایک اور قدر مشترک بھی ہے۔ اب اس کو محض اتفاق کہیں یا حسن اتفاق، عدالت کے خلاف بھی ایسا ہی طرز عمل دیکھنے میں آرہا ہے جو 99 کی باغیانہ طرز انقلاب کے دور میں دکھائی دیا تھا۔ خبر ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے شوکت عزیز صدیقی کو جج کے عہدے سے ہٹائے جانے کے فیصلے پر جہاں ملک کے مختلف حصوں میں وکلا برادری احتجاج کر رہی ہے وہیں اسلام آباد ہائی کورٹ جج کی حیثیت سے ان کے رویے کے بارے میں اعتراضات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
یہ خبر بھی ہے کہ کراچی بار ایسوسی ایشن نے شوکت عزیز صدیقی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرفی کے خلاف منگل کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح کئی دیگر شہروں کی بار ایسوسی ایشنوں نے بھی اس پر احتجاج کیا ہے۔ شوکت عزیز صدیقی جو اپنے طالب علمی اور اس کے بعد وکالت کے زمانے میں جماعت اسلامی کے سرگرم کارکن رہے وہ ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے اپنے ریمارکس اور بیانات کی وجہ سے اکثر خبروں میں نظر آتے رہے۔ انہیں گزشتہ ہفتے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کے پانچ ارکان نے متفقہ طور پر جج کے عہدے سے ہٹانے کی رائے دی تھی، جس کے بعد صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اس فیصلے کی توثیق کی تھی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات کے مطابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں خطاب کے دوران ملکی ادارروں کے خلاف جو تقریر کی ہے اس کی وجہ سے وہ ججوں کے لیے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ دوسری جانب، خاص طور پر سوشل میڈیا پر ان کے ماضی کے بعض بیانات کو تنقید کا سامنا رہا اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ انہیں خفیہ ادارے سے متعلق دیے گئے بیانات کی بنیاد پرگھر بھیجا گیا۔ مزید یہ کہ انہوں نے کئی ایسے بیانات دیے جو ایک جج کی جانب سے ملک میں انتشار پھیلانے کا سبب بن سکتے تھے۔
راقم نہ تو قانون کا طالب علم ہے اور نہ ہی قانونی موشگافیوں میں پڑنا چاہتا ہے۔ یہاں میں صرف ایک جانب اشارہ ضرور کروں گا کہ ان کے خلاف تنقید کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’توہینِ رسالت اور ختمِ نبوت‘‘ سے متعلق مقدمات کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بعض ریمارکس ایسے تھے جن سے معاشرے میں انتشار کی کیفیت پیدا ہو سکتی تھی۔ ان کا یہی جرم نہیں تھا کہ انہوں نے ایک انتہائی حساس ادارے کو ہدف تنقید بنایا تھا بلکہ ایک ٹویٹر صارف ’’یاسر لطیف ہمدانی‘‘ نے لکھا کہ اقلیتوں کے حقوق کے معاملے پر سابق جج شوکت عزیز صدیقی کا کردار ہرگز ججوں کے شایانِ شان نہیں تھا۔ ان کا اشارہ اس کیس کی طرف تھا جس میں سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے یہ فیصلہ سنایا کہ حساس ادارے اور سول سروس میں ملازمت کے لیے مذہب ظاہر کرنا لازمی ہے۔ یہ کیس ملک کی اقلیتی برادری احمدیہ سے متعلق تھا اور مقدمے کی سماعت کے دوران جج کی جانب سے سخت ریمارکس سامنے آتے رہے جن پر انسانی حقوق کے کارکنوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔
99 کے پس منظر میں عدالت کے ایک معزز جج کو برطرف کیا گیا، ممکن ہے یہ مماثلت محض اتفاقی ہی ہو لیکن اس حقیقت سے بھی مفر نہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ضرور ہے۔ راقم کے نزدیک جسٹس شوکت عزیز صدیقی جج ہوتے ہوئے بھی بہت نادان ہی نکلے، کیا ان کو معلوم نہیں کہ پاکستان کے آئین میں وہ باتیں اور شقیں بھی درج ہیں جن کو قانون کی کتاب پڑھنے والا ہر طالب علم نہیں پڑھ سکتا لیکن وہ قانون ہی ہے۔ مثلاً 56 کے آئین کے ہوتے ہوئے بھی 58 کا مارشل لا۔ 73 کا آئین موجود ہوتے ہوئے بھی ضیا الحق کا مارشل لا، پھر پرویز مشرف کا مارشل لا۔ اگر یہ سب آئین پاکستان میں درج نہیں تھا اور اس کو پڑھا یا دیکھا نہیں جاسکتا تھا تو ان اوقات میں موجود عدلتیں یقیناًاس قسم کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف رد عمل کا اظہار کرتیں اور آئین و قانون کے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرتیں۔ ثابت ہوا کہ ایسے سارے اقدامات اٹھائے جانے کا آئین پاکستان اور قانون پاکستان اجازت پہلے بھی دیتا تھا اور آج بھی اجازت دیتا ہے لیکن اس قسم کی شقیں مخصوص آنکھیں ہی دیکھ سکتی ہیں۔
اب جسٹس شوکت عزیز اپنے کرسی انصاف سے فارغ ہو چکے ہیں تو میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے ماضی کو ٹھنڈے دل سے ٹٹولیں گے اور اپنی ذاتی لائبریری میں موجود قانون کی ساری کتابوں کا دوبارہ مطالعہ کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کتابوں میں دکھائی نہ دینے والی ان ساری شقوں کو ڈھونڈ نکالنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے جو بظاہر ان میں درج ہی نہیں۔ باقی اللہ ہر فرد کی مشکل کو آسان کرنے والا ہے۔