اسد عمر صاحب، سبزیاں، پھل اور انڈے میڈیا پر نہیں ملتے

299

خدا خیر کرے، وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہہ دیا ہے کہ آخری بار آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں۔ میڈیا میں معیشت پر بہت بڑا طوفان نظر آرہا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، معیشت کو کوئی خطرہ نہیں، قرض لینا گناہ نہیں، اس پر سیاست بہت ہورہی ہے، جس کسی کی جیب میں پیسہ نہیں ہوتا تو اس کی نظریں دوسرے کی جیب پر ہوتی ہیں اور وزیر خزانہ نے درآمد کنندگان کے بارے میں کہا کہ انہوں نے اتنا پیسہ کمایا جس کی حد نہیں۔ لیکن اس ساری گفتگو میں تشویش کی کیا بات ہے، صرف آخری بار کے لفظ پر ہی تو تشویش ہے۔ لیکن گھبرائیں نہیں جس قسم کے لوگ جس قسم کی پالیسیاں اختیار کررہے ہیں وہ آخری بار نہیں بلکہ کئی بار آئی ایم ایف کے پاس لے جانے والی لگتی ہیں۔ مہنگائی کا طوفان ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ وزیراعظم کے پاس ایک ہی جواب ہے جو وزیر خزانہ کے پاس بھی ہے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ کئی دن سے وزیراعظم اور وزیر خزانہ کے بیانات میں تضاد چل رہا ہے۔ وزیر خزانہ اول روز سے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی باتیں کررہے تھے اور وزیراعظم ڈھل مل تھے یا ان کو عوامی غصے کا اندازہ تھا۔ کیوں کہ انہوں نے تو آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر مرجانا قرار دیا تھا۔ لیکن مرنا بھی تو آسان نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس تو بار بار جانا ہوگا لیکن مرنا ایک بار ہوتا ہے۔
خیر وزیرخزانہ کی گول مول باتوں کی بات کرتے ہیں مزا آئے گا۔ کہتے ہیں معیشت کو خطرہ نہیں، میڈیا میں طوفان نظر آرہا ہے، لیکن حقیقت کیا ہے، ہم انڈے لینے جیو ٹی وی نہیں گئے بلکہ محلے کے دکاندار کے پاس گئے ایک ہفتے میں 50 سے 60 روپے درجن ہوچکے ہیں۔ نومبر میں سردیاں ہیں جو 120 تک لے جائیں گی۔ گاڑی میں گیس بھروانے ڈان ٹی وی نہیں گئے تھے بلکہ سی این جی اسٹیشن گئے۔ پانچ سو تک میں جو سلینڈر بھر جاتا تھا اب وہ سات سو میں بھرا۔ سبزیاں، پھل مہنگے، خوردنی تیل بھی تو کچھ مہنگا ہوا ہے، آنے والے دنوں میں مزید مہنگا کرنے کی خبر سنادی گئی ہے۔ دراصل وزیرخزانہ میڈیا سے نہیں نکل پائے ہیں۔ ان کو معیشت پر سیاست نظر آرہی ہے لیکن آٹا، دال، بچوں کا دودھ، یہ سب کیا ہے یہ میڈیا پر بکتے ہیں، میڈیا پر تو ڈونکی کنگ کے چرچے ہیں، معیشت پر کوئی بات نہیں ہورہی، میڈیا تو یہ بتا ہی نہیں رہا ہے کہ کے الیکٹرک کس طرح بل میں اضافہ کرتا ہے۔ چند یونٹ بڑھا کر سلیب تبدیل کردیا جاتا ہے، بجلی اتنی ہی استعمال ہوتی ہے اور جتنی ہورہی ہے لیکن دس پندرہ یونٹ کے فرق سے سلیب میں 4 روپے فی یونٹ کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ بجلی کی پیداواری لاگت میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا لیکن صارف کا گلا کاٹ دیا جاتا ہے۔ میڈیا پر تو اس پر سیاست نہیں ہورہی اور سیاست تو سیاستدان کرتے ہیں ان سب کا حصہ پہنچ جاتا ہے۔ میڈیا کے ایک حصے میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی کی الیکشن مہم میں 40 فی صد حصہ ابراج گروپ کا تھا۔ تو کیا فرق پڑ گیا معیشت کو خطرہ نہیں۔
وزیر خزانہ فرماتے ہیں کہ قرض لینا کوئی گناہ تو نہیں۔ بالکل ایسا ہی ہے لیکن سود پر قرض لینے کے بارے میں موصوف کیا فرمائیں گے۔ اور تو اور یہ سود بھی خود ادا نہیں کریں گے قوم کو مقروض کریں گے۔ قوم تو نہیں لے رہی یہ قرض آپ حکومت چلانے کے لیے لے رہے ہیں، سود در سود قوم ادا کرے گی، آگے چل کر ڈیفالٹ کا خطرہ آئے گا تو مزید قرض لے کر پھر نئے سود پر قرض لے لیا جائے گا۔ بس یہ میڈیا ہے جو ہمیں چین نہیں لینے دے رہا۔ اس عمر صاحب جانے دیں قوم کو بے وقوف نہ بنائیں۔ ہم نے تو دوچار چیزوں کا نام لیا آپ تو خود اسمبلی کے فلور پر مٹی کے تیل کی قیمت اضافے پر غریب عوام سے ہمدردی کرچکے ہیں اب کیا ہوگیا بار بار مٹی کے تیل کو مہنگا کررہے ہیں، کیا یہ بھی جیو، ڈان، ایکسپریس اور دیگر ٹی وی چینلوں پر مہنگے ہورہے ہیں۔ یہ فیصلے تو حکومت ہی کررہی ہے ناں۔ جو ٹیکس دینے پر مجبور ہے اسے تو نچوڑ کر رکھ دیا اور خود پاکستان کی برآمدات کو تباہ کررہے ہیں اور نظر درآمدکنندگان پر ہے۔ آخر برآمدات میں اضافہ کیوں نہیں ہوتا جس سے زرمبادلہ بھی ملے اور پاکستان کو فائدہ بھی پہنچے!!!۔ اسد عمر صاحب قرض کے بارے میں یہ بھی سن لیں کہ خوب قرض لیں، لیکن اپنے لیے، سود پر قرض لینا گناہ ہے اور اللہ اور رسولؐ سے جنگ کے مترادف ہے لہٰذا اتنے معصوم نہ بنیں۔ ایسی لایعنی باتیں نہ کریں جن کا مطلب یہ نکلتا ہو کہ روٹی نہیں مل رہی ہے تو کیک کھالیں۔ وزیر خزانہ صاحب میڈیا اور ٹی وی اسکرین سے باہر نکلیں، خود جا کر دیکھیں عوام کا کیا حال ہے۔ آخر سندھ کے پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ بھی بھیس بدل کر شراب خانے پہنچے اور کئی لوگوں کو گرفتار کروادیا۔ اس سے انہیں یہ بھی پتا چل گیا کہ بچوں کو بھی شراب فروخت کی جاتی ہے اور مسلمانوں کو بھی۔ تو اسد عمر صاحب بھی بھیس بدل سکتے ہیں تو بدل لیں اور ذرا سڑکوں، گلیوں میں نکل کر آٹے، دال کا بھاؤ تو معلوم کریں۔ حکومت مہنگائی میں تو 30 فی صد تک اضافہ کرتی ہے اور سال میں بار بار کرتی ہے لیکن آمدن میں اضافہ 5 فی صد ہوتا ہے یا 10 فی صد اور پانچ سال میں۔ ویسے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ حلیم عادل شیخ کو شراب خریدنے کے لیے بھیس کیوں بدلنا پڑا قرض بڑھ گیا تھا یا انہوں نے منع کردیا تھا۔