’’بنانا ری پبلک‘‘ ماڈل سے نجات؟ 

341

آصف علی زرداری کا یہ کہنا درست ہے کہ این آر او کی باتیں کمپنی کی مشہوری کے لیے ہو رہی ہیں۔ خدا کرے یہ افواہیں محض گپ شپ ہوں جسے آصف زرداری نے کمپنی کی مشہوری کا نام دیا ہے۔ زرداری صاحب کا یہ کہنا بھی دلچسپ ہے کہ این آر او سے ایم کیو ایم اور میاں نوازشریف کو فائدہ ہوا ہوگا خود انہیں نہیں۔ ملک کے مطلق العنان حکمران جنرل پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کی قیادت میں جب بیرونی دنیا میں این آر او کے لیے مذاکرات اور ملاقاتیں جاری تھیں تو آصف زرداری منظر پر موجود نہیں تھے۔ وہ عملی طور پر سیاست سے الگ اور کسی اچھے وقت کے انتظار میں تھے۔ المیہ یہ ہوا کہ یہ برا وقت ہی ان کے لیے اچھا وقت لے کر آیا۔ بے نظیر بھٹو قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوئیں تو آصف زرداری خود بخود منظر پر نمودار ہوتے چلے گئے۔ این آر او کے دوفریق جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو تھیں مگر بے نظیر اپنے لہو سے جن لوگوں کی قسمت سنوار گئیں ان میں آصف زرداری اور میاں نواز شریف دونوں شامل تھے۔ این آراو کے نتیجے میں اقتدار میں آنے کے جو راستے بے نظیر بھٹو کے لیے صاف ہو چکے تھے انہی پر چل کر آصف زردای طاقت کے ایوانوں میں داخل ہوئے اور تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابندی کی شق کے خاتمے نے میاں نوازشریف کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کی راہیں ہموار کیں۔ یہ پاکستان کے تلخ ماضی کے حقائق ہیں۔ اب سیاسی جوتشی پاکستان کے سیاسی نظام کے حوالے سے مختلف ماڈلز اپنائے جانے کی پیش گوئیوں میں مصروف ہیں۔ کسی کو پاکستان کے نظام میں اُبھرتی ہوئی سخت گیری میں چینی ماڈل دکھائی دے رہا ہے تو کوئی بدعنوانی کے خلاف تیز ہوتی ہوئی مہم کی وجہ سے ملائیشین اور سعودی ماڈل کی بات کررہا ہے۔ کوئی شہری آزادیوں اور میڈیا کی اُڑانوں کو خطرے میں پا کر کسی اور ماڈل کی آمد کے اشارے دے رہا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ کوئی مخصوص ماڈل اپنانا نہیں رہا بلکہ کسی بھی ماڈل سے گریز رہا۔
گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان نے جمہوریت، قانون کی حاکمیت، معاشی خود انحصاری، احتساب اور وسائل کی یکساں اور منصفانہ تقسیم کے لیے سرے سے کوئی ماڈل سامنے رکھ کر پیش قدمی کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس عرصے میں پاکستان نے اگر کوئی ماڈل اپنایا وہ بنانا ری پبلک یعنی کیلا جمہوریہ تھا۔ حقیقت میں یہ امریکا کی ملبوسات تیار کرنے والی ایک بڑی کمپنی کا نام ہے مگر سیاسیات میں یہ اصطلاح سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار اور معاشی طور پر پیراسائٹ ریاستوں کے لیے استعمال ہوتی ہے اور پاکستان ان ہر دو بیماریوں کی وجہ سے اس اصطلاح کی عملی تصویر بنا رہا۔ اس ملک میں قانون کی بالادستی تھی نہ آئین کی سربلندی۔ اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے باجود چھینا جھپٹی کا دور دورہ تھا۔ آئین کی محافظت کے دعوے دار کبھی آئین پر چلنے میں دلچسپی لیتے تھے نہ اپنی کھال میں رہنے والوں نے کھال کے اندر رہنے کا تکلف فرمایا۔ قانون موم کی ایسی ناک تھی جسے نظریہ ضرورت اور طاقتور اور بااثر کی سہولت کے لیے جس طرف چاہا موڑ لیا گیا۔ صوبوں، شہروں، دیہاتوں کی سطح پر قانون کے بجائے وار لارڈز کی حکمرانی تھی۔ ان وار لارڈز کے اوپر کہیں سیاست کا نقاب تھا تو کہیں انتظامیہ، پولیس اور بیوروکریسی کی چادر تنی تھی۔ قبضے، بھتے، میرٹ کا قتل عام، منی لانڈرنگ اس ملک کو بناناری پبلک بنائے ہوئے تھا۔ ملک کی اس حالت کو دیکھ کر بیرونی دنیا کو بھی شہ مل رہی تھی وہ بھی حیلوں بہانوں سے ملک کے اندر اپنے پاکٹس اور لابیاں تشکیل دینے لگے۔ اس صورت حال میں ریاست کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ آزادیوں کے نام پر ایک طوفان بدتمیزی برپا تھا۔ قانون پسند، میرٹ کا متلاشی، اپنی صلاحیتوں کے حوالے سے پراعتماد اور دیانت پسند ذہن اس ماحول میں قطعی مس فٹ ہوکر قاعدے قانون کی حامل مغربی ریاستوں میں تیزی سے منتقل ہو رہا تھا۔ عام آدمی سے اس کی امید اور رومانس چھن رہا تھا۔ اس ماحول میں چند برس سے پاکستان کی گاڑی کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے کی کوششیں شروع ہوئیں جو بڑی حد تک کامیاب ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت کوئی بھی کامیاب ماڈل اپنایا جائے تو قوم کو گوارا ہوگا۔ قوم ’’کیلا جمہوریہ‘‘ ماڈل کی اس طوائف الملوکی اور افرا تفری سے نجات چاہتی ہے جس نے ملک کا حلیہ بگاڑ رکھا ہے۔ قانون اورآئین طاق نسیاں میں سجانے کی چیز نہیں ہوتے بلکہ ان کی اہمیت اور وقعت عمل ہی سے ہوتی ہے۔ اس لیے پاکستان نے بطور ریاست اپنے حالات اور طور طریقے ٹھیک کرنے کا تہیہ کیا ہے تو اب یہ عزم کسی سیاسی مصلحت اور بیرونی مجبوری کی وجہ سے متزلزل نہیں ہونا چاہیے۔
قانون کی حکمرانی اور احتساب کا مضبوط نظام اور معیشت کی بحالی عوام کا ریاست پر اعتماد بحال کرنے کے لیے ناگزیر اقدامات ہیں۔ حکومت اس حوالے سے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ ابھی تک آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا باضابطہ آغاز تو نہیں ہوا مگر حکومت کو آئی ایم ایف کے حکام کے موڈ ہی سے انداز ہ ہوگیا ہے کہ شرائط بہت کڑی ہیں۔ حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کا ملبہ عوام پر گرانا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ موجودہ حکومت عوام کے معاشی حالات کے سدھار اور عام آدمی کی زندگی میں ایک تبدیلی اور انقلاب کے نعروں کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے۔ عوام نے بھی حکومت کے ساتھ بہت توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر حکومت سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک سے کوئی معاملہ طے کرنے میں کامیاب ہو جائے اور ان ملکوں سے ملنے والی رقم کو عوام کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کیا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان معاشی حالات کے سدھار کی خاطر سعودی عرب، ملائیشیا اور چین بھی جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی بات کرکے وزیر اعظم یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ دوست ملکوں سے مدد کے معاملے میں کلی طور پر ’’ناں‘‘ نہیں ہوئی تھی۔ اسی لیے تعاون کی راہوں کی تلاش کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ آئی ایم ایف کے طواف سے ہر ممکن طور پر بچنا ایک آئیڈیل صورت حال ہے۔ اگر ایک بار پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جانے کی رسم توڑ دے تو پھر شاید آئندہ اس رسم کو دہرانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینا بھی پڑا تو اس قرض کا درست استعمال کرنے کی ایک نئی رسم وریت ڈالنا ہوگی اور یہ بات یقینی ہونی چاہیے کہ یہ مملکت پاکستان کا آئی ایم ایف سے آخری قرض ہو۔ اس کے بعد پاکستان کو خود انحصاری اور خودکفالت کی راہوں پر گامزن ہوجانا چاہیے قوم ماضی کی تاریخ سے دامن چھڑانا چاہتی ہے اور اس بات کی امید لگائے بیٹھی ہے کہ کوئی تو ہو جو ملک کو اس ماضی کی بنانا ری پبلک کی اس تنگنائے سے نکال کر ایک نئی شاہراہ پر ڈالدے۔