بھارتی مظالم ہڑتالوں سے نہیں رکیں گے

204

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی دہشت گردی اور مظالم انتہاؤں کو بھی عبور کر گئے ہیں اور اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ عالمی ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ ایک صحافی کے قتل پر سعودی عرب کے خلاف ہنگامہ ہے جو صحافی سے بڑھ کر مختلف حکومتوں کے لیے کام کرنے کے حوالے سے زیادہ معروف تھا اور کشمیر میں لوگوں کے گھروں کو کیمیائی مواد سے اڑادینے کے واقعات کسی کو نظر نہیں آرہے۔ اسے عالمی اداروں، بڑی طاقتوں اور جمہوریت اور آزادیوں کے چیمپئنوں کی بے غیرتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک آدمی کے قتل اور ہزاروں افراد کے قتل میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے کسی کو نظر نہیں آتا کوئی بائیکاٹ نہیں ہوتا۔ بھارت کے خلاف کسی ملک کو بائیکاٹ کی نہیں سوجھی۔ کیا انسانی جانیں اتنی ارزاں ہیں کہ ان پر آواز اٹھانا تو در کنار اس سانحے کو سانحہ ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اسے دو ملکوں کا تنازع قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ایک صحافی کا قتل تشویش اور افسوس کی بات ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں اگر صرف ایک روز قبل کے واقعے کا موازنہ ایک صحافی کے قتل سے کیا جائے تو دو روز میں 14 افراد قتل ہوئے ہیں جنہیں ایک ریاست ہی نے ہی قتل کیا ہے ان کے گھر کیمیاوی مواد کے ذریعے تباہ کیے گئے ہیں پھر بھی اگر یہ کہا جائے کہ یہ دو ملکوں کا مسئلہ ہے تو صحافی کا قتل بھی سعودی عرب اور ترکی کا مسئلہ ہے۔ سارے چمچے کیوں ٹن ٹن کررہے ہیں۔ بھارت، اسرائیل اور اس قسم کے جارح اور اسلام دشمن ممالک کا علاج محض احتجاجوں اور ہڑتالوں سے نہیں ہوگا۔ جس طرح افغانستان میں سو سال کے دوران تین سپر پاورز کا جنازہ جہاد نے نکالا ہے اسی طرح بھارت اور اسرائیل کا علاج بھی صرف اور صرف جہاد ہے۔ یہ کام ریاست کو کرنا چاہیے ورنہ فساد کے راستے کھل جائیں گے۔