گرینڈ الائنس کی تجویز

392

سابق صدر پاکستان سید آصف علی زرداری نے گرینڈ الائنس کی تجویز دے دی ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے حکومت پر سخت تنقید کی ۔ان کے خیال میں نہ وہ خود چل سکتی ہے نہ ملک چلاسکتی ہے، خرابیاں بہت جلد سامنے آگئی ہیں۔آصف زرداری اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا سبب نواز شریف کو قرار دینے کے باوجود ان سے ملنے پر تیار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ جو کچھ ہورہاہے اس کے ذمے دار نواز شریف ہیں لیکن پھر بھی بات ہوسکتی ہے۔ ان کا اصل ہدف حکومت ہٹانا ہے۔ آصف زرداری صاحب کا کہناہے کہ تمام جماعتیں مل کر حکومت ہٹائیں۔ آصف زرداری نے این آر او کے بارے میں کہاکہ مجھے تو اس کا فائدہ نہیں ہوا تھا میرے تو سارے کیسز کھل گئے تھے۔ انہوں نے چیئرمین نیب کی تعریف بھی کی اور یہ بھی کہااکہ کرسی پر بیٹھنے کے بعد سوچ بدل جاتی ہے۔ ان کی پریس کانفرنس کا مسلم لیگ ن کے ایک سینئر لیڈر مشاہد اﷲ نے خیر مقدم کیا ہے بلکہ انہوں نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ جلد اتحاد بنتا دیکھ رہا ہوں۔ لیکن کیا ایسا ہوسکتا ہے؟؟ ایسا اس وقت بڑی آسانی سے ہوسکتا تھا جب 25 جولائی کے انتخابات میں مسلم لیگ 64، پیپلزپارٹی 44، ایم ایم اے 12 اور دیگر پارٹیاں اور گروپ ملاکر مطلوبہ اکثریت بناسکتے تھے۔ اگر زردااری صاحب پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کی بات کررہے ہیں تو یہ ابھی بہت سے ’’اگر مگر‘‘ سے مشروط ہے لیکن یہاں تو پہلے ہونے والی غلطی یا فیصلوں کی بات زیادہ اہم ہے۔ وزارت عظمیٰ اور اسپیکر کے لیے ووٹوں کے حوالے سے غور کیا جانا چاہیے۔ اسپیکر کے الیکشن کے وقت مخصوص نشستوں کے ووٹ شامل نہیں تھے اور اسد قیصر 176 ووٹ لے کر اسپیکر منتخب ہوئے تھے جب کہ اس وقت تک کی گرانڈ اپوزیشن کے امیدوار خورشید شاہ نے 146 ووٹ لیے تھے۔ لیکن وزارت عظمیٰ کے انتخاب کے وقت عمران خان 176 اور شہباز شریف نے 96 ووٹ لیے۔ عین اسی روز ایک لایعنی بات پر پیپلزپارٹی ناراض ہوکر وزارت عظمیٰ کے الیکشن سے الگ ہوگئی۔ گویا اس کے 50 سے زیادہ ووٹ اس موقع پر شہباز شریف کو نہیں ملے۔ آصف زرداری صاحب کی اس صلاحیت سے ایک دنیا واقف ہے کہ اگر وہ چاہتے تو ارکان اسمبلی کا ویسا ہی بازار لگتا جیسا چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے وقت لگا تھا۔ جو چند ووٹ آزاد اور چھوٹے چھوٹے گروپس کے ارکان نے پی ٹی آئی کو دیے تھے زرداری صاحب ان ووٹوں کا رخ بھی گرینڈ الائنس کی طرف کرسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے اور ان کی پارٹی نے ووٹنگ کے عمل سے غیر حاضری کا فیصلہ کیا۔ ایسا کیوں کیا گیا۔ اتنی سیاست دیکھی ہے کیا انہیں اس وقت نہیں پتا تھا کہ یہ لوگ خود بھی نہیں چل سکتے اور حکومت بھی نہیں چلاسکتے۔ صرف ساٹھ روز بعد ایسا فیصلہ کیوں؟ ایسا لگ رہا ہے کہ جو قوتیں اسمبلیوں میں ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی کا ڈراما دکھانا چاہتی ہیں وہ اب نیااتحاد بنوانا چاہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر نیا اتحاد بن بھی جاتا ہے تو کیا پیپلزپارٹی شہباز شریف یا مسلم لیگ ن کے کسی امیدوار کو وزیراعظم بننے دے گی۔ ظاہری بات ہے یہی مسئلہ اس گرینڈ الائنس میں باعث نزاع ہوگا۔ نہ مسلم لیگ ان کا وزیراعظم قبول کرے گی۔ گرینڈ یا کوئی بھی الائنس بنانا آسان کام نہیں ہوتا اور پیپلز پارٹی کی روایت رہی ہے کہ اس نے ہرالاٹنس کو نقصان پہنچایا ہے یا تنہا پرواز کی ہے۔ 1996ء کے انتخابات کے وقت بھی یہی ہوا اور 2008ء کے انتخابات کے بارے میں بھی متفقہ فیصلہ تھا کہ جنرل پرویز کے ماتحت کسی الیکشن میں حصہ نہیں لیا جائے گا۔ لیکن مسلم لیگ ن اور پی پی پی دونوں نے حصہ لے لیا۔ صرف جماعت اسلامی اور ایک دو جماعتوں نے اس فیصلے پر عمل کیا۔ جہاں تک این آر او سے زرداری صاحب کے فائدہ اٹھانے یا نہ اٹھانے کا تعلق ہے تو بے نظیر بھٹو کے پاکستان آنے اور نواز شریف کے لیے پاکستان آنے سے لے کر زرداری صاحب کے صدر بننے تک سب کچھ این آر او کا پھیلاؤ ہی تھا۔ مقدمے کھل کر بند بھی ہوئے۔ بلکہ حیران کن طریقے سے لپیٹے بھی گئے۔ اب تو استثنا بھی حاصل ہے۔ بہر حال آصف زرداری صاحب کی تجویز اپنی جگہ حکومت کی نالائقی اپنی جگہ اگر اس قسم کا کوئی گرینڈ الائنس بن بھی گیا تو اسمبلی میں شور شرابا واک آؤٹ اور نعرے بازی میں اضافہ ہوجائے گا۔ اور عمومی تاثر یہ ملے گا کہ جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر سیاسی رہنما سنجیدہ ہیں تو ایسا کوئی الائنس بنائیں جس کے نتیجے میں سیاست اور جمہوریت کی بدنامی میں کمی ہو۔ آج کل تو حکمران، اپوزیشن، سیاسی اور غیر سیاسی ہر طرح کے لوگ سیاست دانوں کو برا کہہ رہے ہیں۔ اس رویے کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے کسی الائنس کی بھی ضرورت نہیں بلکہ سب خود اصولوں کی پابندی کریں۔ بہر حال گرینڈ الائنس کا خیال اچھا ہے لیکن زرداری صاحب نے دیر کردی ہے۔ درست وقت پر درست فیصلے ہی اچھی سیاست کہلاتے ہیں۔ ممکن ہے اسپیکر اور وزیراعظم کے انتخاب کے وقت زرداری صاحب نے جو فیصلے کیے تھے ان کے حساب سے وہی درست وقت پر درست فیصلے تھے۔ ابھی تو یہ تجویز ہے دوسری جماعتوں خصوصاً ایم ایم اے کا خیال بھی اس حوالے سے سامنے آنا چاہیے۔ اس کے بعد کوئی شکل سامنے آئے گی۔ مشاہد اﷲ صاحب بہت آگے دیکھنے لگے ہیں۔ آصف زرداری کے بیان پر دلچسپ تبصرہ فواد چودھری صاحب کا ہے ۔کہتے ہیں کہ زرداری پاکستان کی قابل شرم داستان کا حصہ ہیں۔ انہیں کئی مقدمات میں ریلیف دیا گیا ہے۔ چودھری صاحب یہ بھی بتادیتے کہ زرداری صاحب کیا اس وقت بھی قابل شرم داستان کا حصہ تھے جب وہ خود اس قافلے میں شامل تھے اور یوسف رضا گیلانی صاحب کے ساتھ سیلفی بناتے تھے یا اس سے بھی زیادہ تاریک اور شرمناک دور کے جنرل پرویز کے ساتھی رہنے میں ان کو کسی قسم کا افسوس ہے یا نہیں۔ اصل بات تو یہی ہے کہ اپنے آپ کو پاک صاف سمجھ کر دوسروں کو برا سمجھنے کا رویہ غلط ہے۔