کراچی میں پانی کی قلت سے شکار علاقوں میں نظام غیر محفوظ، رینجرز طلب

159

کراچی (رپورٹ : محمد انور) کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ہائینڈرنٹس اور پمپنگ اسٹیشن غیر محفوظ ہوگئے‘ جبکہ پانی کا نظام بہتر بنانے میں واٹر بورڈ ناکام ہوگیا‘لوگوں کا اشتعال دیکھ کر ایم ڈی نے حکومت سندھ سے رینجرز کی سیکورٹی فراہم کرنے کی درخواست کردی ہے۔ یادرہے کہ شہر میں روز بروز پانی کی شکایات میں اضافے کے باعث شہریوں کی پریشانی میں اضافہ ہورہا ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ جب پانی کی کمی ہے تو ہائینڈرنٹس پر ٹینکروں کو بھرنے کے لیے پانی کہاں سے آرہا ہے‘اس صورتحال کی وجہ سے مشتعل شہری پمپنگ اسٹیشن اور ہائینڈرنٹس کا رخ کررہے ہیں تاکہ پانی کی تقسیم کے نظام کو خود جانچ سکیں۔ گزشتہ روز بعض افراد نے سخی حسن پمپنگ اسٹیشن کے گرد جمع ہونے لگے جس پر عملے میں خوف پیدا ہوگیا جس کی اطلاع حکام کو دی گئی اور ان سے متعلقہ اسٹاف نے ان کی اور پمپنگ اسٹیشن کے تحفظ کا مطالبہ کردیا۔ واٹر بورڈ کے ایم ڈی خالد محمود شیخ کی جانب سے صوبے کے سیکرٹری داخلہ کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ نارتھ کراچی سے تعلق رکھنے والے ناپسندیدہ عناصر پمپنگ اسٹیشن پر پہنچ کر پمپنگ کے عمل میں رکاوٹ بنتے ہیں جبکہ عملے کو ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے جس کی وجہ سے اس اسٹیشن کی حفاظت کا خصوصی انتظام کے لیے رینجرز تعینات کی جائے۔ خط میں ایم ڈی خالد محمود شیخ نے یہ شرمناک انکشاف بھی کیا ہے کہ نارتھ کراچی کے 18 سیکٹرز کو شیڈول کے تحت ہر 10 دن بعد پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس طرح ہر10 دن بعد ایک سیکٹر کو 10 گھنٹے پانی فراہم کیا جاتا ہے لیکن لوگوں کی جانب سے پمپنگ اسٹیشن پر مداخلت کے باعث شیڈول کے مطابق پانی کی پمپنگ متاثر ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ یہ پمپنگ اسٹیشن گلزار ہجری پولیس اسٹیشن سے متصل ہے۔ شہری امور کے ماہر اور سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم زمان خاں نے اس حوالے سے جسارت کو بتایا ہے کہ شہر میں اب بھی جو پانی آرہا ہے وہ کسی طور پر 5 سو ملین گیلن یومیہ سے کم نہیں ہے لیکن پانی کی تقسیم کے نظام پر کوئی کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے بعض علاقوں کو10،10 روز اور بعض کو ایک، ایک ماہ بھی پانی نہیں مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے‘پانی نہ ملنے کی صورت میں لوگوں کا غصہ بڑھنا فطری عمل ہے۔ فہیم زمان نے حکام پر زور دیا کہ واٹر بورڈ کو اس کے اپنے ماہر انجینئرز کے ذریعے چلایا جائے نا کہ پانی کے نظام سے نابلد افسران کے ذریعے یہ نظام چلایا جائے۔