کرپشن کی دیمک۔کہاں تک کارروائی کرینگے

254

کسی گھر میں دیمک لگ جائے تو دروازوں کی چوکھٹوں، کھڑکیوں، الماریوں غرض ہر چیز کو کھاجاتی ہے۔ جب اس کے متاثرہ کسی حصے کو چھیڑا جائے یا اس پر کوئی سخت چیز جلائی جائے تو دیمک زدہ چیزٹوٹتی چلی جاتی ہے۔ یہی حال پاکستان میں کرپشن کی ہر کہانی کا ہے۔ منی لانڈرنگ، جعلی اکاؤنٹس یا کوئی بھی فراڈ لے لیں ایک کیس پر ہاتھ ڈالیں دوسرا نکل آتا ہے۔ ایک آدمی کو پکڑیں پورا گروہ سامنے آتا ہے ۔جب سے جعلی اکاؤنٹس کا کیس سامنے آیا ہے روزانہ ایک نیا اکاؤنٹ سامنے آجاتا ہے۔ ادھر سندھ حکومت نے جے آئی ٹی سے تعاون سے انکار کیا تو خبر آئی کہ معاملہ اب کروڑوں اربوں نہیں کھرب تک پہنچ گیا ہے۔ 47 ارب عام افراد کے اکاؤنٹس سے اور 54 ارب کمپنیوں کے اکاؤنٹس سے اِدھر اُدھر ہوئے۔ چیف جسٹس نے اس پر فوری ایکشن لیا ہے۔ 26 اکتوبر تک سندھ حکومت کو تمام ریکارڈ کے ساتھ طلب کرلیا۔ لگتا ہے کہ جب تک ریکارڈ آئے گا اور اسے کھولا جائے گا تو یہ کھرب بھی کھربوں میں تبدیل ہوجائے گا۔ کیونکہ ایک سے دوسرا سرا ملا ہوا ہے۔ چیف جسٹس بھی کیا کریں جس کیس میں ہاتھ ڈالتے ہیں اس میں جتنا گہرائی میں جاتے ہیں دیمک زدہ نظام اور گہرائی تک خراب نکلتا ہے۔ یا تو کیس بند کردیا جاتا ہے یا بھاری پتھر سمجھ کر چوم کے ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے کہ کبھی موقع ہوا تو کیس کھولیں گے۔ ویسے بھی ابھی تو ڈیم بنانا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ اس دیمک کو جتنا کھودیں گے اتنی ہی دیمک نکلے گی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سارا نظام ہی غلط بنیادوں پر قائم ہے۔ جب دین کو سیاست سے نکال دیں گے تو یہی نتائج آئیں گے۔ معاشی نظام سود کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ سیاسی نظام ایلکٹ ایبلز کی بنیاد پر دفاعی نظام بڑی طاقتوں کی بنیاد پر۔ کون سا نظام ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کے مطابق چل رہا ہو جب اسمبلیوں میں الیکٹ ایبلز کو بھیجنا اور لانا مقصد ٹھیرے تو کیا نتائج سامنے آئیں گے۔ جب وزیراعظم بنانا تھا تو الیکٹ ایبل ٹھیک تھے ضمنی انتخاب میں شکست ہوئی تو الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دینا غلطی قرار پایا۔ چیف جسٹس اور دیگر سنجیدہ لوگ اور ادارے الیکٹ ایبلز کی سیاست کو ختم کریں اور سینس ایبلز کی سیاست کو فروغ دیں۔ جب تک پاکستان کو اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا جس کے لیے یہ ملک وجود میں آیا تھا اس وقت تک خرابیاں جنم لیتی رہیں گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ رشوت دے کر عہدہ لینے والا رشوت لیے بغیر بیٹھا رہے۔ پیسے دے کر سیٹ خریدنے والا اپنی سیٹ کی قیمت وصول نہیں کرے گا یہاں ہر چیز کی قیمت ہے۔ اگر سیاست کو اسی طرح پیسے کا کھیل بنا کر رکھا گیا تو یہی نتائج ہوں گے۔ کرپشن کی دیمک کو بھی اسی طرح ختم کیا جاسکتا ہے۔ خوامخواہ کھدائی کرتے رہیں گے۔ ارب کھربوں میں اور کھرب اس سے بھی زیادہ بن جائیں گے۔ ہاتھ کچھ نہیںآئے گا جسے ماسٹر مائند قرار دے کر پکڑا گیا ہے وہ بھی فرنٹ مین نکلے گا۔ اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ پنجاب کابینہ کا ایک الیکٹ ایبل وزیر جعلی ڈگری پر منتخب ہوا اور وزیر بن گیا۔ اس کی ایف اے کی سند جعلی تھی۔ چنانچہ بی اے کی ڈگری بھی مسترد کردی گئی۔ یہ وزیر عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ انتخابات کو بھی دیمک چاٹ گئی۔