امریکا، ترکی، سعودیہ اور صحافی

385

 

 

صحافی سعودی عرب کا، پناہ گزیں امریکا میں، تر کی میں سعودی سفارت خانے میں قتل ہوا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پر براہ راست صدر امریکا اتنے چراغ پا کیوں؟۔ امریکا کی چراغ پائی کو اس لیے مان بھی لیا جائے کہ اس کو ہر وہ سرپھرا جو کسی بھی ملک سے باغیانہ رویے کی وجہ سے اس کے ملک میں پناہ لے لے تو اس کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں کیوں کہ اسے اسی ملک کے باغی مل جاتے ہیں جو اس کے جارحانہ، مذموم اور توسیع پسندانہ مقاصد کی تکمیل میں نہایت ممد اور معاون ثابت ہوتے ہیں لیکن ترکی کی چراغ پائی اس لیے سمجھ سے باہر ہے کہ ایک تو وہ مسلمانوں کا ملک ہے اور اس ناتے کم از کم اس کو کچھ نہ کچھ پردہ داری لازماً رکھنی چاہیے تھی اور اگر ایسا ممکن نہیں تھا تو کم از کم اس معاملے میں اسے امریکا کی پالیسی سے ہٹ کر خود ہی کوئی راہ نکال کر سعودیہ سے مناسب انداز میں جواب طلب کرنا چاہیے تھا اور دوم یہ کہ قاتلوں کا کھوج خود اس کی انٹیلی جنس کو لگانا چاہیے تھا کیوں کہ یہ واقعہ خود اس کے اپنے ملک میں پیش آیا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں ترکی اور سعودیہ کے تعلقات بہت برادرانہ نہیں مگر دوسری جانب کیا ترکی کے معاملات امریکا سے بہت مثالی ہیں؟۔ دنیا جانتی ہے کہ ترکی کی پالیسی امریکا مخالف ہی رہی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں امریکی صدر ٹرمپ خطاب کے لیے اٹھے تو مسلمان ممالک میں واحد اردوان ہی تھے جنہوں نے امریکی پالیسیوں کے خلاف احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ جب یہ طے ہے کہ امریکا نہ تو ترکی کا دوست ہے اور نہ ہی ترکی امریکا کو مسلمان دوست سمجھتا ہے تو پھر اسے اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ سعودی صحافی کے اس کے ملک میں قتل ہوجانے کو بنیاد بنا کر کیا امریکا مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچائے گا؟۔ ایسے موقعے پر امریکا کا ہم آواز بننا کیا سعودیہ، مسلم امہ یا ترکی کے حق میں جاسکتا ہے؟۔
اطلاع کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ پیر کو دوبارہ کہا ہے کہ وہ جمال خاشق جی کی موت کے حوالے سے سعودی حکام کی جانب سے فراہم کردہ وضاحتوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ امریکا کا عدم اطمینان اپنی جگہ درست ہے اس لیے کہ شروع میں سعودی حکام قتل جیسے واقعے کا انکار ہی کرتے رہے تھے۔ پھر تحقیقات کی بات کی، پھر قتل کا مبہم سا اقرار کیا اور اس قتل کو آپس کا لڑائی جھگڑا قرار دیا۔ سعودیہ کی تضاد بیانی معاملے کو سلجھانے کے بجائے الجھانے کا سبب ہی بنتی رہی اور اب ایسے مرحلے میں داخل ہو گئی جہاں اس کے لیے دنیا کو جواب دینا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ امریکا کے ہاتھ تو سعودیہ کو مزید دباؤ میں لانے کا ایک توتا لگ گیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ اتوار کو ترک صدر نے ایک ریلی سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ منگل کو ترک پارلیمان سے اپنے خطاب میں تمام راز افشاں کر دیں گے اور سعودی عرب کی جانب سے دی گئی وضاحتوں کا پردہ چاک کر دیں گے۔ اطلاعات کے مطابق امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہیسپل بھی تحقیقات کے سلسلے میں استنبول پہنچی ہیں۔ پیر کو امریکی وزیرِ خزانہ سٹیون منوچن نے ریاض میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات بھی کی ہے، حالاں کہ خاشق جی کے قتل میں ان کا نام آنے کی وجہ سے امریکا کے مختلف حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ سعودی عرب کے سرکاری میڈیا نے کہا ہے کہ امریکی وزیر اور ولی عہد نے امریکا سعودی عرب تعلقات کے اسٹرٹیجک تعلقات کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ تاہم بند کمرے میں ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں امریکا کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ یہاں جو بات نوٹ کرنے کی ہے وہ یہ ہے دنیا میں یہی دیکھا گیا ہے کہ حکومت مخالف جو بھی تحریکیں ہوتی ہیں خواہ وہ فرداً فرداً ہوں یا اجتماعی، دنیا کی ہر ملک کی حکومت اس کے خلاف متحرک ہو جاتی ہے اور اس کو اس سلسلے میں جس حد تک بھی جانا پڑے جاتی ہے خواہ معاملہ فرد کو قتل کردینے جیسا ہو یا گروہوں کو ہلاک کردینے جیسا۔ کیا ترکی میں ایسا نہیں ہوا؟، کیا ہزاروں کی تعداد میں افواج کی گرفتاریاں اور قتال عمل میں نہیں آیا؟، کیا حکومت مخالف ہزاروں جج گرفتار نہیں کیے گئے۔ کیا اس سب کچھ ہنگامے میں ترک حکومت کے خلاف صحافی یا سیاسی رہنما تہہ تیغ نہیں آئے ہوں گے۔ اسی طرح کیا امریکا کی مخالفت کرنے والا کوئی امریکی یا غیر امریکی امریکا کے عتاب سے بچ سکتا ہے۔ کیا ایران میں شہنشاہ کے دور میں شہنشاہ مخالفین کو نہیں کچلا گیا اور پھر خمینی انقلاب کے بعد اسی کے رد عمل کے طور پر شہنشاہ کی باقیات کے خلاف اس سے بھی کہیں بڑھ کر انسانیت سوز سلوک نہیں ہوا جس کا سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے؟۔ کیا افغانستان میں ایک دوسرے کی مخالف قوتیں اب تک ایک دوسرے سے بر سر پیکار نہیں؟۔ کیا پاکستان کی افواج پاکستان دشمن پالیسیوں کے خلاف جہادی اور فسادی قوتوں سے نبرد آزما نہیں؟۔ دنیا کا وہ کون سا ملک ہے جو ریاست مخالفین کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے؟۔ ریاست کا وجود برقرار رکھنے کے لیے اور نظام حکومت کو پر سکون چلانے کے لیے اس قسم کی کارروائیاں بہر صورت ضروری ہوتی ہیں اور ایسی تمام کارروائیاں اس ملک کے قانون کے مطابق ہی ہوتی ہیں جس پر کسی دوسرے ملک کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہوتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکی میں ایک سعودی صحافی کا قتل ہوجانا کوئی معمولی واقعہ نہیں لیکن جس شدت سے امریکی صدر کا براہ راست اس پر واویلا سامنے آرہا ہے اور اس کے فوراً بعد ترکی کے صدر اردوان کا بیان سامنے آیا ہے یہ کسی اور ہی کہانی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ صحافی کسی بھی ملک کا ہو اس کا قتل بے شک معمولی واقعہ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ رپورٹنگ کے دوران صحافی حضرات قتل ہوتے رہے ہیں اور وہ صحافی تو اکثر زد میں آتے رہے ہیں جو حکومت مخالف رپورٹنگ میں شامل ہوں لیکن آج تک یہ بات نہ تو سنی اور نہ پڑھی کہ کسی صحافی کے قتل پر کسی ملک کا کوئی سربراہ اور وہ بھی امریکی صدر براہ راست نہ صرف بولا ہو بلکہ اس بنیاد پر وہ سخت سے سخت کارروائیاں کرنے کا دھمکیاں بھی دے رہا ہو۔ کیا اس کا مقصد سعویہ اور مسلم ممالک کو اور بھی کمزور کر دینا نہیں؟۔ واضح رہے کہ منگل کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ملک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اہم ترین سالانہ کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے جس کی صدارت ولی عہد محمد بن سلمان ہی کر رہے ہیں۔ تاہم امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت کئی اہم شراکت دار ممالک نے خاشق جی کے قتل کے تناظر میں اس کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی ہے۔ امریکا ہی نہیں، دیگر بڑے بڑے رکن ممالک کا کانفرنس میں شریک نہ ہونے کا اعلان کیا کوئی کہانی نہیں سنا رہا؟۔ کہانی بھی محض خاشق جی کو بنیاد بنا کر۔ یہ ایک غور طلب امر ہے اور ایسے نازک موقعے پر ترکی کی برہمی کوئی دانش مندانہ قدم نہیں لگتا۔ ایک جانب صورت حال یہ ہو اور دوسری جانب ہر حکومت کی طرح وہی گھسے پٹے بیانات ’’سعودی مجلسِ شوریٰ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں جمال خاشق جی کے قتل کے حوالے سے عالمی ذرائع ابلاغ میں ہونے والی تنقید کا نام لیے بغیر کہا گیا ہے کہ مملکت کے خلاف جاری موجودہ میڈیا مہم کا مقدر ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ مجلسِ شوریٰ کے اسپیکر ڈاکٹر عبداللہ بن محمد بن ابراہیم الشیخ کا کہنا ہے کہ اس وقت سعودی عرب کی علاقائی اور بین الاقوامی شبیہ کو ہدف بنا کر ایک شدید متعصبانہ مہم چلائی جا رہی ہے اور عوام اور قیادت کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔ راقم کے نزدیک یہ موقع روایتی بیانات جاری کرنے کا نہیں بلکہ سنجیدہ رد عمل کا ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اب دوسروں کا دست نگر بننے کے بجائے پوری طرح اپنے قدموں پر کھڑا ہوا جائے۔ مسلم ممالک کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں کمی اگر ہے تو تعلیم اور مربوط منصوبہ بندی کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اختلافات بھلانے کی بھی ضرورت ہے۔ اگر پوری امت مسلمہ دو تین نقاط پر اٹل ہوجائے تو کسی کی کیا مجال ہے کہ وہ مسلمانوں کی جانب میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔