بھارت میں ’’گھر واپسی‘‘ کی مذموم تحریک

229

بھارت میں اگلے سال عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ نریندر مودی کو اس وقت شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی حکومت کرپشن کے بھاری اسکینڈلز میں پھنسی ہوئی ہے اور اس کی حریف کانگریس اس پر شدید تنقید کررہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت اس دعوے کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی کہ وہ عوام کی حالت بہتر بنائے گی، ملک سے غربت کا خاتمہ کرے گی، جرائم خاص طور پر عورتوں کی بے حرمتی کے سنگین واقعات کو لگام دے گی اور غیر ہندو اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کا خاتمہ کرے گی، لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا ہے عوام کی حالت پہلے سے زیادہ خراب ہوگئی ہے، غربت کیا ختم ہوتی مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا، جرائم بہت بڑھ گئے ہیں، باالخصوص عورتوں کی بے حرمتی کے یومیہ واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جب کہ غیر ہندو اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو شدید ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عیسائی راہبوں کو زندہ جلانے اور گرجا گھروں کو نذر آتش کرنے کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ خیال تھا کہ عام انتخابات سر پہ آنے کے بعد حکومت اپنی پالیسی میں نرمی کرے گی اور مسلمان ووٹروں کے دل جیتنے کے لیے اپنے رویے میں تبدیلی لائے گی لیکن حکومت نے انتخابات جیتنے کے لیے ہندو اکثریت کو رام کرنے اور انتہا پسند ہندو جماعتوں کو کھلی چھوٹ دینے کی پالیسی اپنا لی ہے، اس پالیسی میں مسلمانوں کو زندہ رہنے کا حق دینے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ یہی وہ پالیسی ہے جو نریندر مودی سیاست میں آنے کے بعد سے مسلسل اپنائے ہوئے ہیں، وہ ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ کے منصب پر بھی اسی پالیسی کے سہارے پہنچے تھے اور اپنے دور اقتدار میں بدترین مسلم کش فسادات کی منصوبہ بندی کی تھی۔ گجرات کا دارالحکومت احمد آباد جو مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کا امین تھا انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں کئی دن تک لہو میں ڈوبا رہا، مسلمانوں کا کاروبار، ان کی کروڑوں، اربوں کی صنعتیں، ان کے مکانات اور سب سے بڑھ کر ان کی قیمتی جانیں سب نذر آتش کردی گئیں۔ صوبائی اسمبلی کے مسلمان رکن کے مکان پر دھاوا بول کر اسے باہر نکالا گیا اور جنونی ہندوؤں نے زندہ حالت میں اس کا ایک ایک عضو کاٹ کر اسے شہید کیا۔ نریندر مودی کو احمد آباد میں مسلمانوں کے اس قتل عام پر ’’گجرات کا قصائی‘‘ قرار دیا گیا لیکن اس نے شرمندہ ہونے کے بجائے اسے اپنا ’’اعزاز‘‘ سمجھا اور 2014ء کے عام انتخابات میں ہندو اکثریت کے ذریعے اس ’’اعزاز‘‘ کو کیش کرانے کی کامیاب کوشش کی، اس طرح وہ بھارت کا وزیراعظم منتخب ہوگیا۔
یوں تو بھارت میں مسلمانوں کو برصغیر کی تقسیم کے فوراً بعد سے آزمائش کا سامنا ہے، ہندو انہیں پاکستان کا حامی اور بھارت ماتا کو دو ٹکڑے کرنے کا ذمے دار سمجھے ہیں۔ ان کا یہ ’’گناہ‘‘ ہندوؤں نے آج تک معاف نہیں کیا، اکھنڈ بھارت یعنی پاکستان کو منہدم کرکے اسے بھارت میں شامل کرنا بی جے پی سمیت تمام انتہا پسند جماعتوں کا ایجنڈا ہے۔ کانگریس کو اگرچہ ہندوؤں کی لبرل جماعت کہا جاتا ہے لیکن درپردہ اس کا ایجنڈا بھی یہی تھا اس سے طویل دور میں سب سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوئے، تاریخی بابری مسجد کو منہدم کرنے کا واقعہ اسی کے دور میں پیش آیا، جب کہ اس سے پہلے پاکستان کو دولخت کرنے اور مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے کا ’’کارنامہ‘‘ بھی کانگریسی حکومت ہی نے انجام دیا اور اُس وقت کی کانگریسی وزیراعظم اندرگاندھی نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ ہم نے مسلمانوں سے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کرنے کا انتقام لے لیا اور یہ کہ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ کانگریس کے بعد انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی برسراقتدار آئی ہے تو وہ بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف وہ ساری کسر پوری کررہی ہے جو کانگریس کے دور میں رہ گئی تھی۔ چناں چہ مودی حکومت نے ’’ہندتوا‘‘ کو اپنا ایجنڈا بنالیا ہے، اس کا مطلب ہے ہندوستان میں موجود ہر چیز کو خواہ وہ جاندار ہے یا بے جان اسے ہندو ازم کے رنگ میں رنگنا اور اس پر ہندومت کی چھاپ لگانا۔ ’’ہندتوا‘‘ کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ اس نظریے کا اطلاق ہندوستان میں بسنے والے باشندوں پر بھی ہوتا ہے، بعض ہندو دانشور یہ عجیب و غریب دلیل لائے ہیں کہ جس طرح امریکا میں رہنے والا امریکی، فرانس میں رہنے والا فرانسیسی اور برطانیہ میں رہنے والا برطانوی ہے اسی طرح ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا نسل سے ہو لیکن یہ دلیل بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے، کیوں کہ ہندو کسی قومیت کا نام نہیں یہ ہندومت کو ماننے والے کا نام اور اس کی مذہبی شناخت ہے، کوئی مسلمان ہندو نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی ہندو مسلمان کہلا سکتا ہے، البتہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو ہندوستانی مسلمان ضرور کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بسنے والے ہندو پاکستانی ہندو کہلاسکتے ہیں۔ خود انتہا پسند ہندو بھی اپنے دانشوروں کی اس دلیل کو غلط سمجھتے ہیں، چناں چہ انہوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانے کے لیے ’’گھر واپسی‘‘ کی تحریک شروع کر رکھی ہے، ہندوؤں کا موقف ہے کہ ہندوستان میں آباد مسلمان اور عیسائی پہلے ہندو ہی تھے پھر برصغیر میں مسلمان صوفیا کی آمد اور ان کی تبلیغ سے ہندو گھرانے مسلمان ہوتے گئے، اسی طرح عیسائی مشنریوں کی تبلیغ سے بہت سے ہندو عیسائی ہوگئے، اب ہندوستان میں ہندوؤں کی حکومت ہے تو اب ان لوگوں کو اپنے گھر واپس آجانا چاہیے۔ آئندہ سال عام انتخابات سے پہلے انتہا پسند ہندو تنظیموں نے یہ تحریک پوری شدت سے شروع کردی ہے، اس تحریک کا اصل نشانہ مسلمان ہیں، حال ہی میں اتر پردیش کے علاقے باغپت میں بیس افراد پر مشتمل مسلمانوں کا ایک گھرانا ہندو ہوگیا ہے جس پر ہندوؤں میں جشن برپا ہے، اس گھرانے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اسے اور خاندان کے دیگر افراد کو فوجداری مقدمات میں پھنسا دیا گیا تھا اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی ان کی مدد کرنے کو تیار نہ تھا اس لیے مجبوراً ہندو ہونا پڑا۔ یہ مجبوری بہت سے مسلمانوں کو لاحق ہے اور ہندو ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھارہے ہیں، تاہم مسلمانوں کی اکثریت اس تحریک کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے اور اپنے ایمان کا سودا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بھارت میں اسلام کی جڑیں بہت گہری ہیں وہ اس مذموم تحریک سے نہ ہل سکیں گی۔