پی کے71،غیرمتوقع نتائج 

301

گزشتہ اتوار کو پی کے71 پشاورکی خالی نشست پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں اپوزیشن اتحاد کے امیدوار صلاح الدین مہمند کے ہاتھوں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار اور گورنر شاہ فرمان کے بھائی ذوالفقار خان کی ہارنے پی ٹی آئی کو دوماہ سے بھی کم عرصے میں وزیر اعلیٰ اور گورنر کے آبائی اضلاع کے دودو صوبائی حلقوں پر واضح شکست سے دوچار کردیا ہے جسے سیاسی تجزیہ کار ایک بڑے اپ سیٹ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پی کے 71کی نشست پر اے این پی کے امیدوار صلاح الدین نے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق 11ہزار ووٹ جب کہ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے امیدوار ذوالفقار خان نے دس ہزار سے زاید ووٹ حاصل کیے ہیں۔ یہ نشست 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار شاہ فرمان نے جیتی تھی جنہوں نے گورنر بننے کے بعد یہ نشست خالی کردی تھی۔ اس حلقے سے ٹکٹ کی تقسیم پر اختلافات کی وجہ سے پی ٹی آئی کے ایک کارکن دلدار خان نے ضمنی الیکشن میں آزاد حیثیت سے حصہ لیا جنہوں نے5 ہزار 3سو سے زاید ووٹ حاصل کر کے پی ٹی آئی کے ووٹوں کو تقسیم کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی خان اور مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین نے پی کے 71 کے ضمنی الیکشن میں اے این پی اور متحدہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار صلاح الدین مہمند کی کامیابی پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے ایک تہنیتی بیان میں کہا ہے کہ صلاح الدین کی کامیابی در حقیقت موجودہ حکومت کی ناقص پالیسیوں پر عوام کا عدم اعتماد ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے دو ماہ میں ہی فلاپ ہو چکی ہے اور عوام نے ضمنی الیکشن میں ان پر عدم اعتماد کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ نام نہاد تبدیلی کے حق میں نہیں ہیں، انہوں نے متحدہ اپوزیشن میں شامل جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔
پی کے 71کی نشست پر کامیابی سے خیبر پختون خوا اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان کی تعداد 11تک پہنچ گئی ہے، عام انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی نے خیبر پختون خوا اسمبلی کی7نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جس میں پارٹی کے صوبائی صدر امیر حیدر خان ہوتی نے صوبائی اسمبلی کی جیتی ہوئی نشست سے استعفا دیا اور یوں اے این پی کے صوبائی اسمبلی میں جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کرنیوالے ارکان کی تعداد 6رہ گئی تھی جبکہ خواتین کی دو مخصوص نشستیں بھی چوں کہ اے این پی کے حصہ میں آئی تھیں جس سے ایوان میں اے این پی ارکان کی تعداد 8ہوگئی تھی لہٰذا ضمنی انتخابات میں سوات سے ایک اور پشاور سے دو نشستوں پر کامیابی کے بعد صوبائی اسمبلی میں اے این پی ارکان کی مجموعی تعداد 11تک پہنچ گئی ہے۔
پی کے71کے ضمنی انتخابات کے دوران ٹرن آؤٹ نسبتاً کم رہا، اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر صبح سے دوپہر تک چند ووٹ ہی پول ہوسکے تھے جس کے بعد مقابلے میں شامل جماعتوں نے مساجد سے اعلانات کے ذریعے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلنے کی درخواستیں کیں۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ پی کے78کے ضمنی الیکشن کے لیے بھی ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بہت کم ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ پی کے 71 کے ضمنی الیکشن میں بھی پولنگ کا ٹرن آؤٹ بہت کم رہا ہے، ووٹرز کوپولنگ اسٹیشنوں پر لانے کے لیے گاڑیوں کا بھی انتظام کیا گیا تھا لیکن تعطیل کے باوجود بھی مطلوبہ تعداد میں لوگ پولنگ اسٹیشنوں تک نہیں آئے۔ سوال یہ ہے کہ ووٹرز کی اس عدم دلچسپی کی وجہ کیا ہے، کیا اس عدم دلچسپی کی وجہ ووٹرز کا موجودہ حکومت کی کارکردگی سے بے زاری کا اظہار ہے یا پھر انتخابی عمل اور اس کے نتیجے میں منتخب ہونے والے امیدواران کی کارکردگی سے لاتعلقی کا اظہار ہے۔ یہ بات لائق غور ہے کہ خیبر پختون خوا میں 14اکتوبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن کی طرح حالیہ پی کے 71 کے ضمنی الیکشن میں بھی حکمران جماعت نے پارٹی کے کسی وفادار اور مخلص کارکن کے بجائے تقریباً تمام دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح موروثی سیاست کو زندہ رکھتے ہوئے اس حلقے سے موجودہ گورنر خیبر پختون خوا کے بھائی کو ٹکٹ جاری کیا تھا جس پر پارٹی کے دیرینہ کارکن نہ صرف ناراض تھے بلکہ انہوں نے پارٹی کے ایک منحرف کارکن کو میدان میں اتار کر پی ٹی آئی کے سرکاری امیدوار کے ساڑھے پانچ ہزار سے زاید ووٹ کاٹ کر اس کی شکست میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جو پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لیے یقیناًایک غور طلب ایشو ہے۔ دوسری جانب خیبر پختون خوا میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابی نتائج کو سیاسی ماہرین برسراقتدار پی ٹی آئی کے لیے ایک بڑے چیلنج سے تعبیر کر رہے ہیں کیوں کہ ڈھائی ماہ کے وقفے سے ہونے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کو سوات کی دو سابقہ جیتی ہوئی نشستوں سے ہاتھ دھونے کے علاوہ این اے 35 بنوں اور پشاور کے حلقوں پی کے78 اور پی کے71پر شکست نیز مردان پی کے 53 میں انتہائی سخت مقابلے کے بعد محض 61ووٹوں کے فرق سے اے این پی کے امیدوار کی ناکامی کو صوبے میں پی ٹی آئی کی کمزور ہوتی ہوئی سیاسی گرفت پر محمول کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن کی تین بڑی جماعتوں مجلس عمل، اے این پی اور مسلم لیگ (ن) نے حالیہ ضمنی انتخابات میں کامیابی کی صورت میں جو کم بیک کیا ہے اسے بھی صوبے میں سیاسی ہواؤں کے رخ کی تبدیلی کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔