پی ٹی آئی کلچر کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں ہم نے کہا تھا ’’آثار و قرائن بتارہے ہیں نیا پاکستان بنانے کے دعوے داروں کا طرز حکمرانی پیش رو حکومتوں کا تسلسل ہی ہوگا۔ آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریزی کی روایت برقرار رہے گی، ملکی اور قومی مفادات اور تحفظات کو رہن رکھ کر ملک و قوم پر احسان جتانے کی روش کا تسلسل بھی جاری رہے گا، نجکاری کو نیا انداز دیا جائے گا، اقربا پروری کو قوم کے لہو سے مزید نکھارا جائے گا‘‘۔
عمران خان کہا کرتے تھے کہ واضح اکثریت نہ مل سکی تو اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھ جائیں گے اور اگر اقتدار مل گیا تو عالمی سود خوروں سے قرض مانگنے کے بجائے خودکشی کرلیں گے مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ موصوف نے وزیراعظم بننے کی بے لگام خواہش کی تکمیل کے لیے مانگے تانگے کے ارکان اسمبلی اور آزاد ارکان اسمبلیوں کو سینے سے لگالیا اور اب آئی ایم ایف کے حضور سرنگوں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص اپنی ذات کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہ کرسکا وہ اپنے ووٹروں سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کیسے کرے گا؟۔ خان صاحب! جنہیں بددیانت اور بدکردار کہتے نہیں تھکتے انہیں بنی گالا کی گنگا میں اشنان کراکے پووتر کردیا ہے، اس پس منظر میں اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی اجازت بھی مل جائے گی۔
ٹی وی اینکر اور سیاسی مبصرین بڑی شدومد سے قوم کو یہ باور کرانے میں ’’جتے‘‘ ہوئے ہیں کہ عمران خان پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر ہیں مگر زمینی حقائق کچھ اور ہی کہتے ہیں۔ سیاسی دانش وری کے دعوے دار اس حقیقت سے چشم پوشی کررہے ہیں کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے بلی کا وجود عدم وجود میں تبدیل نہیں ہوجاتا اور حقیقت یہ بھی ہے کہ عمران خان کا ذکر زبان زد عام ہے مگر یہ ذکر عام ان کی شخصیت کا کمال نہیں اور نہ ان کی قابلیت کا اعتراف ہے، اس کی بنیادی اور اہم وجہ یہ ہے کہ عوام تبدیلی کے خواہاں تھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے بدظن ہوگئے تھے کیوں کہ دونوں جماعتوں نے اپنے عزیز واقارب کو
نوازنے کے سوا کچھ نہیں کیا، قوم سے ان کا تعلق ووٹ کے حصول تک محدود رہا، اب یہ قوم کی بدبختی اور بدنصیبی ہے کہ وہ عمران خان کو نجات دہندہ سمجھ بیٹھی مگر پی ٹی آئی اس کے جوڑوں میں بیٹھ گئی۔ جہانگیر ترین بھی یہ سمجھانے سے قاصر ہیں کہ گنگا جل سے بدن اور کپڑوں کی صفائی تو ہوسکتی ہے مگر اندر کی غلاظت کی دھلائی نہیں ہوسکتی۔ خان صاحب کی کابینہ میں جو لوگ شامل ہیں یہ تو ہر بارات میں شامل ہوتے ہیں، تحریک انصاف ایسی جنج بن گئی ہے جس میں ہر جمعہ خان کی شمولیت ضروری ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ جمعہ جنج نال ہو تو تھوڑی دیر کے لیے رونق لگ جاتی ہے مگر خان صاحب کی بارات تو پانچ سال کے لیے آئی ہے، جو لوگ عمران خان کی فطرت سے واقف ہیں وہ یہ ماننے پر تیار ہی نہیں کہ خان صاحب کسی جمعہ چودھری کو پانچ سال تک برداشت کرتے رہیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ سیاسی ضرورتوں اور مجبوریوں سے نبھا کرتے ہیں یا اپنی ہی حکومت کا جھٹکا کردیں گے۔
عمران خان بائیس سال سے تبدیلی کی نوید سنارہے تھے قوم کو یہ باور کرانے کی جدوجہد کررہے تھے کہ ان کو
موقع دیا گیا تو ملک کی قسمت سنور جائے گی مگر برسراقتدار آتے ہی تبدیلی کے خواب کی تعبیر کے لیے چند ماہ کی مہلت مانگ رہے ہیں، گویا اقتدار کی دلہن کی مانگ سجانے کے لیے اپنی مانگ پیش کررہے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ تبدیلی آگئی ہے اور بچے گلی گلی یہ گنگناتے پھر رہے ہیں کہ ’’تبدیلی آئی رے‘‘۔ اس سے بڑی تبدیلی اور کیا ہوگی؟؟؟ ہاں یاد آیا، وزیراعظم کی مسند پر جلوہ افروز ہونے سے قبل عمران خان سونامی کا بہت چرچا کیا کرتے تھے، سونامی سے ان کی کیا مراد تھی یہ تو معلوم نہیں مگر ان کی مراد برآئی ہے اور یہ ایک ایسا راز ہے جو مشاشقند کے تھیلے کی بلی ہی ثابت ہوگا۔ البتہ مہنگائی کا سونامی آگیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ مہنگائی کا سونامی حکومت کو ڈبوئے گا یا قوم کو۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ حکومت چند غوطے کھا کر سنبھل جائے گی اور شاہ مدار کی طرح مرے ہوئے کو مارتی رہے گی۔ شیخ رشید کہا کرتے تھے کہ عمران خان وزیراعظم بن گیا تو پٹرول کی قیمت 46 روپے فی لیٹر ہوگی اور ڈالر 90 روپے کا ہوگا مگر ان کے طرز حکمرانی سے ظاہر یہ ہورہا ہے کہ پٹرول 146 روپے اور ڈالر 190 روپے تک پہنچ جائے گا اور قوم جان کنی کے عالم میں اپنے سر کے بال نوچ نوچ کر چلائے گی کہ کری جارہا ایں۔ کی کرلی جارہا ایں۔