امکانات کا شاعر

369

کاشف غائر امکانات کے شاعر ہیں۔ فی زمانہ کسی شاعر کو امکانات کا شاعر قرار دینا خطرے سے خالی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اچھے شاعر بھی ایک مجموعے کی مار ہوتے ہیں۔ انہیں جو کچھ کہنا ہوتا ہے ایک مجموعے میں کہہ دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر شاعر ایک مجموعہ شائع کرکے رہ جاتا ہے بلکہ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ اکثر شاعر ایک مجموعے میں اپنے امکانات کا دائرہ مکمل کرلیتے ہیں۔ پھر یا تو ان کا دوسرا مجموعہ شائع ہی نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو داہرتے ہیں۔ خیال کی سطح پر، تجربے کی سطح پر، اظہار کی سطح پر، یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ فیض احمد فیض تک اس مسئلے کی گرفت سے نہیں بچے۔ مثلاً اگر وہ اپنے آخری دو تین مجموعے شائع نہ کرتے تو ان کا کچھ بگڑ نہ جاتا لیکن فیض کے پاس قاری بھی تھے اور شہرت بھی۔ چناں چہ قارئین اور شہرت کے دباؤ کے تحت وہ لکھتے رہے اور خود کو دہراتے رہے۔ حالاں کہ ژاں پال سارتر نے ایک انٹرویو میں بالکل درست کہا کہ تخلیق کار چڑیوں کی طرح نہیں ہوتا جو ہر وقت چوں چوں کرتی رہتی ہیں۔ کچھ دنوں کے لیے خاموش ہو کر دیکھنا بھی تخلیقی عمل کا حصہ ہے۔ بہرحال یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ کاشف غائر واقعتاً امکانات کے شاعر ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کا پہلا مجموعہ ’’راستے گھر نہیں جانے دیتے‘‘ ایک ’’اچھا‘‘ مجموعہ ہے۔ لیکن ان کا دوسرا مجموعہ ’’کہاں جائے گی تنہائی ہماری‘‘ بہت اچھا مجموعہ کہلانے کا مستحق ہے۔ اس سے اہم بات یہ ہے کہ دوسرے مجموعے کے بعد وہ جو غزلیں کہہ رہے ہیں ان میں کچھ غزلیں دوسرے مجموعے میں شامل غزلوں کی سطح کی ہیں مگر بعض غزلیں دوسرے مجموعے کی غزلوں سے بھی بہتر ہیں۔ یعنی ان شاء اللہ ان کا تیسرا مجموعہ شائع ہوگا تو وہ دوسرے مجموعے سے کچھ نہ کچھ بہتر ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اکثر شاعر صرف ایک مجموعے تک کیوں محدود رہ جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ راجندر سنگھ بیدی اور امرتا پریتم سے منسوب ایک واقعے سے معلوم کرنی چاہیے۔ اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کو معلوم ہوا کہ امریتا پریتم اپنی خود نوشت لکھ رہی ہیں۔ بیدی نے امریتا سے استفسار کیا تو امریتا نے کہا کہ جی میں خود نوشت لکھ رہی ہوں۔ بیدی نے کہا تمہاری زندگی ہے ہی کتنی سی؟ تمہاری پوری خود نوشت کے لیے ایک رسیدی ٹکٹ بھی کافی ہوجائے گا۔ امریتا کو یہ بات اتنی پسند آئی کہ انہوں نے اپنی خود نوشت کا نام رسیدی ٹکٹ رکھ دیا۔
ہماری تخلیقی روایت میں ایک مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ تخلیق کاروں کی عظیم اکثریت شعوری یا علمی سطح پر روایت اور جدیدیت کے مفہوم سے آگاہ نہیں۔ اکثر لوگ جب جدید غزل یا جدید افسانے کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد 1950ء یا 1960ء کے بعد لکھی جانے والی غزل یا افسانہ ہوتا ہے۔ حالاں کہ روایت ایک تصور زندگی، ایک تناظر، ایک تصور انسان اور ایک تصور کائنات کا نام ہے۔ اسی طرح جدید ہونے کا مطلب محض ’’نیا‘‘ ہونا نہیں بلکہ جدیدیت بھی ایک تصور زندگی، ایک تصور انسان اور ایک تناظر کا نام ہے۔ ان دونوں کی اپنی اپنی فکری یا فلسفیانہ بنیادیں ہیں۔ چوں کہ ہمارے اکثر تخلیق کاروں کا شعور روایت اور جدیدیت کی مبادیات کے تصورات سے آراستہ نہیں اس لیے ان کی تخلیقی قوت ایک طرح کے فکری اور تہذیبی خلا میں کام کرتی ہے اور اتنی بار آور یا Productive نہیں ہوپاتی جتنی کہ وہ ہوسکتی ہے۔ کاشف غائر بھی روایت اور جدیدیت کے مقدمات سے شعوری طور پر آگاہ نہیں ہیں مگر اس کے باوجود ان کے تخلیقی شعور پر روایت کا سایہ ہے اور کہیں لاشعوری طور پر سہی ان کی شاعری میں جدیدیت کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ روایت کا شعور ان کے مطالعے کا حاصل ہے اور جدیدیت کی جھلکیاں ان کے تجربات اور مشاہدات کی دین ہیں۔ کاشف روایت اور جدیدیت کو شعوری طور پر جذب کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کے امکانات کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔ مگر روایت اور جدیدیت کو شعوری طور پر جذب کرنے کے لیے مضبوط اعصاب کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ شعر و ادب میں معلوم کو محسوس بنانا مذاق نہیں۔
ویسے تو یہ ہر عہد کا مسئلہ ہے مگر ہمارے زمانے میں یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہوگیا ہے۔ اس مسئلے کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ انسانوں باالخصوص اکثر تخلیق کاروں کی شخصیتوں میں کوئی مرکز نہیں ہوتا۔ اس کی عام وجہ یہ ہے کہ اکثر فنکاروں کے پاس نہ کوئی بڑا تجربہ ہوتا ہے اور نہ ان کے تجربات میں گہرائی اور ارتکاز ہوتا ہے۔ کاشف غائر کی شخصیت میں بھی مرکز نہیں ہے مگر وہ مرکز پیدا کرنے کا امکان رکھتے ہیں۔ فی زمانہ یہ بات بہت کم انسانوں اور بہت کم تخلیق کاروں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ بہرحال آئیے اب کاشف غائر کے دو شعری مجموعوں کی سیر کرتے ہیں۔ پہلے کاشف کے پہلے شعری مجموعے ’’راستے گھر نہیں جانے دیتے‘‘ کی سیر۔
چراغِ شام آیا ہے ہمارے
اندھیرا کام آیا ہے ہمارے
کوئی کیا کام آتا‘ کام جیسے
دلِ ناکام آیا ہے ہمارے
………..
کیا کہیں اور دل کے بارے میں
ہم ملازم ہیں اس ادارے میں
روشنی منتقل ہوئی کیسے
اس ستارے سے اس ستارے میں
………..
اپنی آنکھوں سے ہوگئے اوجھل
اس کے دل میں جگہ بناتے ہوئے
………..
قدم میں خاک اٹھاؤں گا اس گلی کی طرف
دعا کو ہاتھ اٹھانا محال ہوگئے ہیں
………..
زمیں آباد ہوتی جارہی ہے
کہاں جائے گی تنہائی ہماری
………..
ہر ایک شکل یہاں آئینے کی کھوج میں ہے
مگر وہ شکل جسے آئینہ تلاش کرے
………..
اور اب کاشف کے دوسرے مجموعے کی سیاحت
کاشف حسین دشت میں جتنے بھی دن رہا
بیٹھا نہیں غبار مرے احترام میں
………..
لوگ اس راہ سے عجلت میں گزر جاتے ہیں
بے چراغی کی طرف دھیان کہاں جاتا ہے
آج کل خواب کے بارے میں ہے تشویش مجھے
آنکھ کھلتے ہی یہ مہمان کہاں جاتا ہے
ایک نادیدہ سی زنجیر لیے پھرتی ہے
اپنی مرضی سے یہ انسان کہاں جاتا ہے
شام ہوتے ہی کہاں جاتا ہوں کیا بتلاؤں
آدمی ہو کے پریشاں کہاں جاتا ہے
بھاگ سکتا ہے کہاں دل کی عدالت سے کوئی
ہے یہی حشر کا میدان کہاں جاتا ہے
………..
بس ایک شام بچی تھی تمہارے حصے کی
مگر وہ شام بھی یاروں میں بانٹ دی میں نے
………..
ایک دیوار کو تصویر سمجھتا رہا میں
اور تصویر سمجھتی رہی دیوار مجھے
محفل میں قصّہ گو کے علاوہ کوئی نہ تھا
آغاز اس نے میری کہانی کا جب کیا
………..
یہ بحرِ عشق ہے غائر کوئی مذاق نہیں
وہی بچے گا جسے ڈوب جانا آتا ہے
………..
جس طرف کوئی نہ تھا کچھ بھی نہ تھا
اس طرف بھی روشنی جاتی رہی
وہ خوشی کہتے ہیں جس کو زندگی
زندگی بھر فرض کی جاتی رہی
سننے والا کون تھا کوئی نہیں
بات تو پھر بھی کہی جاتی رہی
………..
اس جگہ سے کیوں پلٹ جاتی ہے موج
اس جگہ پر کیا کوئی دیوار تھی
………..
میں نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی اٹھائی تلوار
ورنہ رکھی تھی وہیں ڈھال بھی تلوار کے ساتھ
………..
کسی طرف بھی مجھے دیکھنے نہیں دیتا
اس آئینے نے تو پتھر بنا کے رکھ دیا ہے
خدا کا کام تھا خلق خدا سے کیوں کہتا
سو اپنا مسئلہ آگے خدا کے رکھ دیا ہے
………..
بند آنکھوں سے بھی ہر وقت نظر آتا ہے
کیسا منظر ہے ضرورت نہیں بینائی کی
………..
یہ دیکھتی ہی نہیں بولنے بھی لگتی ہے
اسی لیے تو میں تصویر کم بناتا ہوں
………..
لاکھ ویران سہی شہر محبت لیکن
میں نے اس شہر کو لکّھا ہے ہمیشہ آباد
………..
دل میں تیری محبت بڑھتی جاتی ہے
ویرانے کی قیمت بڑھتی جاتی ہے
………..
بسی ہوئی ہے ترے ہاتھ کی مہک اس میں
یہ پھول میرے لیے باغ سے کوئی کم ہے
………..
اب یہ عالم ہے کہ تصویر اسے تکتی ہے
اور تصویر کو تصویر بنانے والا
اک صدا آتی ہے زنجیر سے گاہے گاہے
خود گرفتار ہے زنجیر بنانے والا
………..
خدا بھی خلق خدا کی طرح خفا تو نہیں
پکارتا ہوں تو امداد کیوں نہیں کرتا
سکوتِ شب ہے یہ شورِ سحر سے ٹوٹے گا
خدا کے سامنے فریاد کیوں نہیں کرتا
………..
یہ جہاں تک راستہ موجود ہے
اس سے آگے بھی خدا موجود ہے
بے نیازانہ گزر دنیا سے تُو
بے نیازی کا صلہ موجود ہے
………..
پڑھا رہے ہو سبق دل کو دنیا داری کا
پڑھائے جاؤ اسے یاد ہونے والا نہیں
………..
اے عشق ہمیں دیکھ کہ ہم نے
مانا ہے تجھے تیری کرامات سے پہلے
………..
میری دیوانگی سے واقف تھا
جس نے صحرا میں گھر دیا ہے مجھے
………..
ہم سے آباد ہے دنیا غائر
جیسے زنداں کسی زندانی سے
………..
دو دن سے زیادہ ہمیں رہنا ہی نہیں تھا
دو دن کے لیے کیا درو دیوار بناتے
………..
دیکھنے والوں کو مشکل سے نظر آتا ہوں
کہ میں آنکھوں سے نہیں دل سے نظر آتا ہوں
………..
اک عمر کی ہے دل کے لگانے میں احتیاط
اور اتنی احتیاط کے دل دل نہیں رہا
………..
کیا ارتقا پزیر ہے انسان کا شعور
رشتوں کو چھوڑ چھاڑ کے اشیا تک آگیا
………..
نیا مجنوں محبت سے زیادہ
محبت کی اداکاری سے خوش ہے
………..
یہ خود سے ملنے ملانے کی ایک صورت ہے
کہ رابطہ ذرا دنیا سے کم کیا جائے
………..
جست بھر کا وہ راستہ ہی نہ تھا
آپ نے جست خوامخواہ بھری
کیا مسافت کا لطف آئے گا
راہ گیروں سے ہے یہ راہ بھری
دل جہنم سے کم نہیں غائر
دل میں دنیا ہے بے پناہ بھری
………..
کاشف حسین اُس رخِ انور کو دیکھ کر
جانا ہے روشنی نے کہ ہوتا ہے نُور کیا
ان شعروں پر الگ الگ اور مجموعی طور پر طویل گفتگو ہوسکتی ہے مگر یہ گفتگو پھر کبھی۔ فی الحال صرف ایک دعا۔ اللہ تعالیٰ کاشف غائر کو اپنے امکانات بروئے کار لانے کی توفیق عطا کرے اور انہیں حاسدوں کے حسد سے محفوظ رکھے۔ آمین۔