سروں سے چھت چھیننے کی مہم

262

کراچی میں قیام پاکستان کے بعد سرکاری ملازمین کے لیے تعمیر کردہ چھوٹے چھوٹے مکانات میں آباد مکینوں کو بے دخل کرنے کی مہم شروع کردی گئی ہے۔ یہ کوارٹرز اس وقت تعمیر کیے گئے تھے جب کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا اور کارسرکار چلانے کے لیے ان تجربہ کار اور پڑھے لکھے افراد کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جن کی اکثریت بھارت سے ہجرت کرکے آئی تھی۔ ظاہر ہے کہ ہجرت کرکے آنے والے بے گھر تھے چنانچہ ان کو سرکاری کوارٹرز الاٹ کیے گئے۔ بے شک یہ مکانات سرکاری ملازمین کے لیے اور وفاقی حکومت کے تھے مگر ان مکانات میں لوگ70 برس سے آباد تھے اور ان کی دوسری اور تیسری نسل ان کوارٹروں میں پیدا ہوئی۔ اب اچانک عدالت عظمیٰ نے حکم جاری کردیا کہ یہ کوارٹرز خالی کرائے جائیں۔ چنانچہ گزشتہ بدھ کو پولیس پاکستان کوارٹرز خالی کرانے کے لیے مکینوں پر ٹوٹ پڑی اور بد ترین تشدد کا مظاہرہ کیا جس کا حکم عدالت عظمیٰ نے نہیں دیا تھا۔ جن لوگوں سے ان کی چھت چھینی جارہی تھی ان کا احتجاج بجا تھا مگر پولیس نے روایتی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور آبی توپ کا استعمال کرکے سولجر بازار کے عاقے کو میدان جنگ بنادیا۔ احتجاج کرنے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ درجنوں افراد زخمی ہوگئے اور پولیس کے چھ اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ ایک اہلکار نے گولی بھی چلادی جسے گرفتار کرلیاگیا ہے۔ پولیس نے نہ صرف متعدد افراد کو گرفتار کرلیابلکہ سیکڑوں رہائشیوں کے خلاف مقدمات بھی درج ہوگئے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے پولیس کی جارحیت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے گرفتار افراد کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم بھی دے دیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے خرابئ بسیار کے بعد 3 ماہ کے لیے کارروائی معطل کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کا کہناہے کہ مکینوں کے پاس مالکانہ حقوق ہیں، عدالت عظمیٰ کو اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ جب کہ مکینوں کا کہناہے کہ وہ باقاعدہ کرایہ ادا کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ مالک نہیں ہیں۔ یہ ایک پرانا مسئلہ ہے جو لاٹھی چارج سے حل نہیں ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی معقول حل تلاش کیا جائے جس سے سیکڑوں افراد بے گھر ہونے سے بچ جائیں۔ عمران خان ملک بھر میں 50 لاکھ مکانات بنانے جارہے ہیں۔ ان کوارٹرز کو بھی اپنی اسکیم میں شامل کرلیں جو پہلے سے بنے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ بہر حال پاکستان کے شہری ہیں جن کے بزرگوں نے پاکستان کی خدمت میں زندگی کھپادی۔ انتخابات سے پہلے پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے اس مسئلے پر مکینوں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا لیکن تحریک انصاف کراچی سے ووٹ لے چکی، اب اسے ضروت نہیں رہی۔ چنانچہ پی ٹی آئی کراچی کے رہنما فردوس شمیم اعوان اور خرم شیر زمان نے قابل اعتراض بیان دینے میں دیر نہیں لگائی۔ اس کے نتیجے میں اگلے دن ان کھلاڑیوں کو اپنے کئی پروگرام منسوخ کرنے پڑے۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کوارٹرز خالی کرانے کا حکم عارضی طور پر روک لیا ہے یعنی 3 ماہ بعد پھر یہی ہوگایہ خالص انسانی معاملہ ہے اسے پولیس کے ذریعے حل نہ کرایا جائے۔ دوسری طرف جسارت کے رپورٹر کی خبر کے مطابق سرکاری ادارے کراچی میں اربوں روپے مالیت کے پلاٹوں پر قبضہ ختم کرانے میں ناکام ہیں۔ ان کا زور مجبور افراد پر چلتا ہے۔