این آر او کون مانگ رہا ہے؟

397

وزیر اعظم عمران خان نے تین ماہ میں تیسری بار قوم سے خطاب کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں انتباہ کیا ہے کہ اپوزیشن کان کھول کر سن لے ، این آر او نہیں ملے گا ، کسی دباؤ میں آئے بغر سب کا احتساب ہو گا ۔ اس دھمکی سے فوری طور پر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ این آر او کا مطالبہ کون کررہا ہے اور اگر کررہا ہے تو اس کا نام بتایا جائے ۔ یہ بات چونکہ وزارت عظمیٰ کے اہم ترین منصب پر فائز شخص نے کہی ہے اس لیے اس کا ثبوت بھی ہونا چاہیے اور ثبوت فراہم کرنے کی ذمے داری وزیر اعظم پر ہے ۔ ورنہ تو یہ سمجھا جائے گا کہ انہوں نے اپنی دھمکی میں وزن ڈالنے کے لیے ہوائی چھوڑی ہے ۔ ایک سوال یہ ہے کہ این آر او کیا ہے؟ یہ قومی مفاہمت کا ایسا سمجھوتا تھا جو ماضی میں جرائم کے مرتکب افراد کے ساتھ کیا گیا اور ان کی تعداد ہزاروں میں تھی ۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او ہونے کی وجہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو واپس آ سکیں اور آصف زرداری پر چلنے والے مقدمات ختم کیے گئے ۔ لیکن سابق صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہ ان پر چلنے والے مقدمات تو دوبارہ کھل گئے تھے چنانچہ انہیں این آر او کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ متحدہ قومی موومنٹ کو پہنچا جو جنرل پرویز مشرف کے بقول ان کی عوامی قوت تھی ۔ متعدد مجرم رہا ہو گئے اور بہت سے ملک سے باہر چلے گئے ۔ این آر او حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا چنانچہ این آر او دینا نہ دینا حکومت کا کام ہے اس کے لیے دھمکی دینے کی ضرورت نہیں ۔ یہ تو اس وقت میں کہا جا سکتا تھا جب کوئی تیسری قوت این آر او دینے جا رہی ہو ۔ چنانچہ اپوزیشن نہیں حکمران اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھیں ۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے بھی یہی سوال اٹھایا ہے کہ وزیر اعظم این آر او مانگنے والوں کا نام سامنے لائیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ این آر او لینا ہو تا تو نواز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ جیل جانے کے لیے لندن سے واپس نہ آتے ۔ عمران خان کی اس دھمکی سے ان کے ترجمان فواد چودھری کو کھیلنے کا ایک اور موقع مل گیا لیکن وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ فواد چودھری کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے ۔ تو کیا وہ اس حکومت کے کامیڈین ہیں؟ ہم تو یہ نہیں کہہ سکتے ۔ عمران خان کو یہ کہنے کی ضرورت بھی نہیں تھی کہ سب کا احتساب ہوگا ۔ بد عنوان عناصر کوئی بھی ہوں ان کا احتساب ضرور ہونا چاہیے ۔ اس کے لیے اعلان کی ضرورت نہیں ۔ بد عنوانوں کا احتساب ہوتا رہتا تو نوبت یہاں تک نہ آتی ۔ عمران خان احتساب کا آغاز اپنے ساتھیوں سے کریں تو ان کی غیر جانبداری مستحکم ہو جائے گی اور مریم اورنگ زیب یہ نہ کہہ سکیں گی کہ ان کے دائیں بائیں کرپٹ اور چور بیٹھے ہیں ۔ ان کے وزیر دفاع اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی الزامات کی زد میں ہیں ۔ اس وقت تو یہ تاثر بڑھتا جار ہا ہے کہ احتساب حزب اختلاف کا ہو رہا ہے اور عوام حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہونے لگے ہیں ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ عمرانی حکومت محض مہنگائی بڑھانے میں جت گئی ہے۔ عمران خان نے گزشتہ بدھ کو قوم سے جو خطاب کیا ہے اس کا بنیادی نکتہ سعودی عرب کا دورہ اور اس سے طے پانے والے معاہدوں پر روشنی ڈالناتھا۔لیکن وہ مخالفین پر برسنے کے اپنے پسندیدہ موضوع پر آ گئے ، یہ بھول کر کہ اب وہ حزب اختلاف میں نہیں ، حکومت میں ہیں اور اب ان کا منصب دھمکیاں دینا نہیں ۔ یہ باتیں اگر وہ فواد چودھری سے کہلوا دیتے تو بہتر ہو تا ۔ عمران خان نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پاکستان یمن اور سعودی عرب جنگ میں ثالثی کرے گا ۔ بہت اچھی بات ہے ۔ کبھی جنرل ضیاء الحق مرحوم نے بھی ایران عراق جنگ میں ثالثی کی کوشش کی تھی ۔ تاہم پاکستان یمن جنگ پر ثالثی کرنے لگا تو کیا اس کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف نہیں ہو گا جس سے مفادات حاصل کیے جا رہے ہیں اور بقول عمران خان زبر دست پیکیج مل گیا ہے ۔ ایسے میں غیر جانبداری ضرور متاثر ہو گی جو ثالث کے لیے لازمی ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یمن میں لڑائی پوری امت مسلمہ کے لیے تکلیف دہ ہے ۔ یمن بھی مسلم ملک ہے جس پر سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد کی طرف سے بمباری ہور ہی ہے ۔ یمن اس وقت شدید قحط کا شکار ہے ، 84 لاکھ یمنی خوراک کے منتظر ہیں ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یمن میں انسانی صورتحال دنیا بھر میں بد ترین ہے ۔ سعودی عرب مسلم ممالک میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور وہ غریب ممالک کی امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے ۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی ملک یمن کے قحط زدہ افراد پر فضائی حملے بند کرے اور کسی کی ثالثی کے بغیر خود آگے بڑھ کر اس جنگ کو ختم کرے جس کا ایندھن مسلمان بن رہے ہیں ۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ مسلم ممالک کو اکٹھا کرنے کے لیے جلد خوشخبری دیں گے ۔ خدا انہیں اپنے نیک عزائم میں کامیاب کرے۔ اور اب وہ عمل بھی شروع کر دیں ۔