سرکاری عمارتوں میں ہوٹل اور پارک!

171

عمران خان کی حکومت نے ملک میں تبدیلی لانے کے لیے بھینسیں اور سرکاری گاڑیاں بیچنے کے بعد اب تمام بڑی سرکاری عمارتوں میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ گزشتہ بدھ کو وزیراعظم کی صدارت میں کمیٹی نے وزیراعظم ہاؤس سمیت کئی سرکاری عمارتوں کا حلیہ بدلنے کی منظوری دیدی ہے۔ اس فیصلے کے مطابق وزیراعظم ہاؤس کو بین الاقوامی یونیورسٹی میں تبدیل کردیا جائیگا اور گورنر ہاؤسز کو تعلیمی اداروں،پارکس، ہوٹلوں اور میوزیم میں بدلا جائے گا۔ اس سے پاکستان میں یقیناً بہت بڑی تبدیلی آجائے گی تاہم ابھی قائداعظم ہاؤس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ایک سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم ہاؤس کسی کی ذاتی ملکیت ہے یا یہ ریاست کی ملکیت ہے؟اگر یہ وزیراعظم کی ذاتی جاگیر ہے تو انہیں اس کے بارے میں ہر فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ وہ اسے یونیورسٹی بنائیں یا عجائب گھر ۔لیکن اگر 5سال بعد کوئی دوسری حکومت آئی تو کیا وہ اس فیصلے کو برقرار رکھے گی یا نیا وزیراعظم یہاں رہایش رکھنا پسند کرے گا۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ ایسی عمارتیں تاریخی حیثیت اختیار کرجاتی ہیں اور وزیراعظم ہاؤس ہو یا گورنر ہاؤس ‘ان میں غیر ملکی مہمانوں کو ٹھیرایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے بارے میں اچھا تاثر قائم ہوتا ہے۔ ان عمارتوں پر اٹھنے والے اخراجات کم کیے جاسکتے ہیں لیکن یہاں کام کرنے والے ملازمین کو نکالنے سے بیروزگاری بڑھے گی اور ممکن ہے کہ وہ ملازمین بھی ڈی چوک پر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں ۔ ویسے تو بنی گالا کی حویلی بھی بڑے وسیع رقبے پر ہے اور عمران خان کا ارادہ ایک چھوٹے سے گھر میں رہنے کا ہے تو کیوں نہ اس کو بھی کسی مفید کام میں استعمال کرلیا جائے۔ وزیراعظم نے مذکورہ اجلاس میں گورنر ہاؤسز پر اٹھنے والے اخراجات کا جائزہ بھی لیا اور ان کی وجہ سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصانات سے بھی آگاہ کیا۔ فیصلہ ہوا کہ گورنر ہاؤس پنجاب کو عوامی پارک بنادیا جائے اور بیرونی عمارت کو ڈھادیا جائے۔ خیبرپختونخواہ کا گورنر ہاؤس خواتین کے پارک اور عجائب گھر میں تبدیل ہوجائے گا۔ نتھیا گلی کے ہاؤس میں ہوٹل کھلے گا۔کوئٹہ کا گورنر ہاؤس 25ایکڑ پر محیط ہے ۔ اسے بھی پارک بنادیا جائے گا۔ لیکن پارک بنانے سے قومی خزانے کو کتنا فائدہ ہوگا؟ان کا رقبہ کم کرکے باقی زمین پر غریبوں کے لیے گھر تعمیر کرادیں تو عمران خان کے گھر منصوبے کو بھی فائدہ ہوگا۔