کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی

392

مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کی درندگی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ گزشتہ جمعرات کو بھی 7کشمیریوں کو شہید کردیا گیا۔ ہر طرح کے ظلم وستم اور خواتین کی بے حرمتی کے باوجود کشمیر کے حریت پسند اس ناجائز قبضے کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں اور جان ومال کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ کشمیر پر بھارتی قبضے کو 70برس سے زاید گزرچکے ہیں۔ بھارتی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کی انتہا ہوچکی ہے۔ اقوام متحدہ کی واضح قرارداد موجود ہے کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام آزادانہ حق رائے دہی سے کریں گے۔ قرارداد میں کشمیریوں کو دو اختیار دیے گئے ہیں کہ یا تو وہ بھارت سے الحاق کرلیں یا پاکستان سے۔ بھارتی حکمرانوں کو خوب معلوم ہے کہ کشمیریوں کا فیصلہ کیا ہوگا۔ اس کا اظہار بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو بھی کرچکے ہیں جو کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے کیونکہ انہیں نظر آرہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی فوج کشی سے آزاد ہوجائے گا چنانچہ وہ اقوام متحدہ میں چلے گئے۔ اس قرارداد کے بعد پنڈت نہرو کی یہ تقریر ریکارڈ پر ہے کہ مجھے معلوم ہے کشمیریوں کا فیصلہ کیا ہوگا لیکن ہم ان کے حق کا احترام کریں گے۔ مگر ہوا کیا؟پنڈت جی مخصوص برہمنی ہتھکنڈے آزماکر معاملے کو ٹالتے رہے اور پھر جب ان کی بیٹی اندرا گاندھی وزیراعظم بنیں تو انہوں نے اپنے پتاجی پر کڑی تنقید کی کہ وہ اقوام متحدہ میں کیوں گئے ۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت نہایت پڑھے لکھے کشمیری بھی بھارت سے نجات کی تحریک میں شامل ہیں اور ان میں سے دو پی ایچ ڈی اسکالر بھی شہید ہوچکے ہیں۔ شہیدوں کے لاشے پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفنائے جاتے ہیں اور جنازوں کے جلوس میں پاکستان کے لیے نعرے لگتے ہیں۔ بھارت کا دعویٰ کہ مقبوضہ جموں وکشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے لیکن کیا کوئی ملک اپنے کسی علاقے کو اپنا انگ بنائے رکھنے کے لیے 8لاکھ فوج تعینات کرتا ہے؟اس کا تو واضح مطلب ہے کہ اتنی بڑی فوج کے بغیر بھارت کشمیر پر تسلط قائم نہیں رکھ سکتا ۔ یہ عمل بجائے خود اس کے دعوے کی نفی ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیرچوں کہ متنازع ہے اس لیے پاکستان کو بھی پورا اختیار ہے کہ وہ بھی اپنی فوج مقبوضہ علاقے میں اتار دے۔ بھارتی مظالم کے خلاف کشمیری آئے دن ہڑتالیں کررہے ہیں، کاروبار بند رہتا ہے جس سے خود کشمیریوں کا بھی مالی نقصان ہوتا ہے لیکن وہ بھارت سے نجات حاصل کرنے کے لیے جان کے ساتھ مال کی قربانی بھی دے رہے ہیں۔ بھارت برسوں سے پاکستان پر الزامات عاید کرتا آرہا ہے کہ وہ کشمیر میں گڑ بڑ کرارہا ہے۔ لیکن کوئی بیرونی طاقت اتنے طویل عرصے تک مداخلت نہیں کرسکتی ۔ آزادی کی یہ تحریک خود کشمیریوں کی تحریک ہے چنانچہ جو شہید ہورہے ہیں وہ کشمیری ہی ہیں۔ بھارت اس الزام کی آڑ میں کنٹرول لائن پر آئے دن دہشت گردی اور بلااشتعال فائرنگ کا ارتکاب کرتا رہتا ہے جس میں آزاد کشمیر کے عام شہری اپنی جان سے جاتے ہیں اور الزام پاکستان پر ۔ آج کشمیر سمیت دنیا بھر میں کشمیری یوم سیاہ منارہے ہیں۔ 27اکتوبر ہی کو بھارت نے برعظیم کی تقسیم کے فارمولے کو پامال کرتے ہوئے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرلیا تھا۔ جماعت اسلامی بھی اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی اور ان کی جدوجہد آزادی کی حمایت کے لیے آج کشمیر مارچ کررہی ہے۔ وفاقی وزیر امور کشمیر وگلگت بلتستان علی امین گنڈا پور نے بھی اعلان کیا ہے کہ بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف آج یوم سیاہ بھرپور طریقے سے منایا جائے گا۔ اس دن احتجاجی ریلیوں، تصویری نمائشوں، ٹاک شوز،دستاویزی فلمیں، سیمینار،تعلیمی اداروں میں تقریری مقابلے اور اہم عمارتوں پر بینر لگانے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ پاکستان فی الوقت اتنا ہی کرسکتا ہے جو بے بسی کا اظہار تو ہے لیکن اس طرح عوام، بالخصوص نوجوان نسل کو کشمیر کے مسئلے سے آگاہ رکھا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کو یاد رکھیں اور انہیں یہ بھی معلوم رہے کہ تقسیم برعظیم کا ایجنڈا ابھی نا مکمل ہے جس کے تحت پورے کشمیر کاپاکستان سے الحاق ہونا تھا۔ پاک فوج کے سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی بھارتی دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ پاک فوج کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دے سکتی ہے، کشمیر اہم ترین اور بنیادی تصفیہ طلب مسئلہ ہے اور ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بھارت کے انتہا پسند حکمران ’’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ کی کہاوت پر عمل پیرا ہیں اور جب سے بھارت میں بی جے پی جیسی مسلم دشمن اور دہشت گرد تنظیم اقتدار میں آئی ہے ایک طرف تو مقبوضہ کشمیر میں دہشت اور وحشت کا بازار گرم ہے دوسری طرف پاکستان کو دھمکیوں کا سلسلہ بھی بڑھ گیا ہے۔ بھارتی جنرل بپن راوت حملے کی دھمکیاں دے رہے ہیں تو خود وزیراعظم نریندرمودی نے کہا ہے کہ پاکستان نے کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزی بند نہ کی تو بھارت پاکستان کے خلاف موثر فوجی آپریشن کرے گا۔ شاید یہ اس نام نہاد سرجیکل آپریشن کی طرح ہو جس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔نئی نسل کو کشمیر کے ماضی اور حال سے باخبر رکھنے کے لیے اس موضوع پر سیمینار اور جلسے ہوتے رہنے چاہییں جن میں جذباتی تقریروں سے قطع نظر کشمیر کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے۔