سعودی عرب کا امداد پیکیج

194

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے یہ خبر آئی ہے کہ وہاں منعقدہ سرمایہ کاری کانفرنس کے دوران وزیراعظم عمران خان اور خادم الحرمین شریفین سلمان بن عبدالعزیز کے درمیان ملاقات ہوئی اس کے بعد سعودی وزیر خزانہ محمد امجد اور پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت پاکستان کو توازنِ ادائیگی کی بہتری کے لیے 3 ارب ڈالر دیے جائیں گے اور ہر سال سعودی عرب سے پاکستان کو درآمد ہونے والے خام تیل جس کا امپورٹ بل تقریباً 3 ارب ڈالر سہ ماہی ہے اس کی ادائیگی موخر کرتے ہوئے اگلے سال ادا کی جائے گی اور اس طرح یہ سلسلہ 3 سال تک چلے گا اس کے بعد معاہدے پر نظرثانی کی جائے گی۔ مزید یہ کہ سعودی عرب گوادر میں تعمیر ہونے والی آئل ریفائنری میں بھی سرمایہ کاری کرے گا جو اصل میں سعودی آرامکو اور پاکستان اسٹیٹ آئل کے درمیان تعاون کی ایک شکل ہوگی۔
سعودی عرب اس سے پہلے بھی 2014ء میں پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر تحفے کی شکل میں نواز دورِ حکومت میں زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر کرنے کے لیے فراہم کرچکا ہے۔ حکومتی حلقوں میں 6 ارب ڈالر کے اس معاہدے کے بعد خوشیاں منائی جارہی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ معاہدہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے میں سہارا دے گا اور پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔ معاشی و کاروباری معاملات بے حد حساس ہوتے ہیں منفی خبریں آنے پر معاشی اشارے گرنا شروع ہوجاتے ہیں جب کہ اچھی خبروں سے ان کی پرواز بلند ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاہدے کی خبر آنے کے بعد ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ مضبوط ہونے لگا اور اس کی قدر میں 1.33 روپے کا اضافہ ہوا۔ اسی طرح اسٹاک مارکیٹ میں بھی 1500 پوائنٹ کا اضافہ ہوا اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ ان 6 ارب ڈالر سے پاکستانی معیشت کو سانس لینے کا موقع ملا ہے لیکن اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی منزل ابھی دور ہے اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ بڑا کٹھن ہے اور اس میں ابھی بہت مشکلات سامنے کھڑی ہیں۔ مثلاً روپے کی قدر کم کرنے اور درآمدی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگانے کے بعد بھی سال 18-19ء کی پہلی سہ ماہی میں درآمدات میں اضافہ 6 فی صد ہوا ہے جب کہ برآمدات میں اضافہ 3.6 فی صد ہوا ہے، صرف آئل کا امپورٹ بل 4.13 ارب ڈالر ہے لیکن ترسیلات زر میں اضافہ ہے، اس وجہ سے کرنٹ خسارہ کم ہو کر پہلی سہ ماہی میں 3.6 ارب ڈالر رہا جب کہ پچھلے سال 3.7 ارب ڈالر تھا۔ جاری حالات کے لحاظ سے سال بھر کا کرنٹ خسارہ 18 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جب کہ حکومت کی تمام منصوبہ بندی 12 ارب ڈالر کے حساب سے ہے۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ اب تک حکومت کے اقدام کے باوجود درآمدات میں کمی واقع نہ ہوئی جب کہ برآمدات میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ حکومت نے بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کردیا ہے، یعنی ایک طرف سعودی عرب سے معاہدے کی خوشی اور دوسری طرف عوام پر بجلی کے اضافی نرخوں کا بوجھ۔ مہنگی بجلی کے باعث پیداواری لاگت بڑھے گی اور اس کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوگا، یہ حکومت کا وہ تحفہ ہے جو اس نے عوام کو دیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں پہلے ہی بجلی کے نرخ دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور اس کی وجہ سے پاکستانی برآمدات بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کرپائیں۔ مزید بجلی مہنگی ہونے سے برآمدات دوسرے ممالک کی برآمدات سے اور زیادہ مہنگی ہوجائیں گی تو ہم برآمدات میں اضافہ کس طرح کریں گے۔ تجارتی خسارے میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا سب سے اہم ذریعہ برآمدات ہیں، اسی لیے بھارت، بنگلا دیش، ویت نام، ملیشیا، جنوبی کوریا وغیرہ نے برآمدات کے معیار اور پیداواری لاگت پر بہت توجہ دی ہے اور یہ تمام ممالک پاکستان سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ پاکستان اسٹیل مل، پی آئی اے اور دوسرے سرکاری اداروں کا ہے جو سالہا سال سے خسارے میں چل رہے ہیں اور فیڈرل بجٹ کی خطیر رقم ان کے بیل آؤٹ پیکیج میں چلی جاتی ہے۔ کیا ان اداروں کو پرائیوٹائز کیا جائے گا، کیا ان اداروں کو دوبارہ منافع بخش بنایا جائے گا، کیا ان اداروں کو یونہی چلنے دیا جائے گا یہ بھی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ کیا حکومت آئی ایم ایف کے جال میں پھنسنے سے بچ سکے گی، اس کا امکان بہت کم ہے، آئی ایم ایف کی ٹیم 5 نومبر کو پاکستان آرہی ہے، اس سے پہلے 2 نومبر کو عمران خان کا چین جانے کا پروگرام ہے۔ اگر چین سے بھی سعودی عرب کی طرح کوئی امدادی پیکیج مل گیا تو حالات مزید بہتر ہوسکتے ہیں اور آئی ایم ایف کا باب فی الحال بندہوجائے گا۔ دوسری صورت میں آئی ایم ایف سے بہرحال مذاکرات کرنا ہوں گے۔ یہ ضرور ہے کہ آئی ایم ایف اتنی کڑی شرائط نہیں لگا سکے گا جیسا کہ پہلے خبریں آرہی تھیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ چاہے تھوڑا ہو، بغیر شرائط کے نہیں ملتا اور اس طرح حکومت عوام سے کڑوی گولی کھانے کا مطالبہ کرے گی۔