پچاس مرغے

293

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے پاکستان کے نظام عدل سے بالا ہو کر دعویٰ کیا ہے کہ میاں نواز شریف 100 فی صد دوبارہ جیل جائیں گے۔ اس کا فیصلہ تو چند روز میں یا چند ہفتوں میں ہوجائے گا کہ میاں نواز شریف جیل جائیں گے یا نہیں لیکن فواد چودھری صاحب نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ حکومت ہی ہے جو عدالتوں، نیب، ایف آئی اے وغیرہ کو احکامات دے رہی ہے اور اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن کررہی ہے۔ حالاں کہ جیو کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اطلاعات نے اس امر کی تردید کی۔۔۔ اور کہا کہ لوگوں کی گرفتاریاں مقدمات طلبی وغیرہ تو پرانے مقدمات میں ہورہی ہیں ہمارا کیا تعلق۔۔۔ لیکن جب آپ کا وزیراعظم کہتا ہو کہ 50 مرغے اندر کردوں گا۔۔۔ یا ساری اپوزیشن کا احتساب ہوگا تو یہ خیال ازخود پیدا ہوگا کہ اپنے والے سارے پاک صاف ہیں؟؟ حالاں کہ یہ بھی آدھے سے زیادہ اپوزیشن ہی سے آئے ہیں۔ ہمیں تو وزیراعظم کے انداز پر افسوس ہورہا ہے، موصوف پاکستان کے وزیراعظم بن چکے ہیں، دو تین مرتبہ سعودی عرب کا دورہ کرچکے ہیں ان کو یقین نہیں آرہا کہ وہ اب وزیراعظم بن گئے ہیں، انہیں یہ لگتا ہے کہ اب بھی وہ اپوزیشن میں ہیں اور انداز شکایتی ہے۔ سعودی عرب میں عالمی کانفرنس سے خطاب کے دوران انہوں نے کوئی سات مرتبہ تو یہ کہا کہ پاکستان میں دس سال سے کرپشن ہورہی تھی۔ پریس کانفرنس میں بھی یہی کہا کہ دس سال سے کرپشن ہورہی تھی۔ سرمایہ کاروں سے خطاب میں جب ملک کا وزیراعظم یہ کہے کہ میرے ملک میں دس سال سے کرپشن ہورہی تھی تو سرمایہ کار کیا کرے گا۔ جو ادارہ، کمپنی یا فرد لاکھوں کروڑوں ریال کسی منصوبے پر لگانے کا ارادہ رکھتا ہو اسے کیا یہ معلوم نہیں ہوگا کہ دس سال سے کرپشن کرنے والے گروہوں کے 60 فی صد ارکان کو اپنی پارٹی میں الیکٹ ایبلز کے نام پر کس نے شامل کیا ہے۔ اور کسی بھی ادارے کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ ایسے منصوبے اور ملک میں سرمایہ نہیں لگاتا جہاں کی تاریخ کرپشن کی ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ 25 جولائی تک ملک میں کرپشن چل رہی تھی اور اگست 2018ء سے کرپشن ختم ہوگئی۔ اس کرپشن کی تکرار کا الٹا اثر ہوگا۔ سرمایہ کار خوفزدہ ہوجائے گا، اور لگتا ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔
وزیراعظم کنٹینر سے باہر نہیں نکلے قوم کے نام اپنے خطاب میں بھی ان کا لہجہ وہی تھا۔ سعودی عرب سے ملنے والے پیکیج اور دیگر خوش خبریاں سنانے کے موقع پر کڑوی کسیلی باتیں نہ بھی کرتے اگلے دن کرلیتے تو کیا جاتا۔ لیکن ان کا مزاج بن گیا ہے کہ خبر اچھی بنے گی، سرخی تو ہر جگہ یہی لگی کہ اپوزیشن کان کھول کر سن لے این آر او نہیں ملے گا۔ بڑی اچھی بات ہے این آر او نہیں ملے گا، ملنا بھی نہیں چاہیے، لیکن این آر او کا ذکر کیوں آیا۔ کیا جناب اسکول ٹیچر ہیں، کلاس میں داخل ہوتے ہی کہتے ہیں کہ شرارتی بچوں کو چھٹی نہیں ملے گی۔ آپ حکومت چلائیں، کوئی این آر او مانگنے آئے تو عدالتوں کا راستہ دکھادیں۔ لیکن ایک سوال اور بھی ہے، کیا وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کسی کو این آر او دے سکتی ہے؟؟ ہماری رائے میں تو اسے یہ اختیار ہی نہیں اور اس میں یہ صلاحیت بھی نہیں۔ این آر او کا خالق ایک جرنیل تھا یہ این آر او جرنیل ہی دیتے ہیں، پابندیاں بھی وہی لگاتے ہیں۔ مرتضیٰ بھٹو ملک سے باہر جرنیل ہی کے دور میں گیا، دیگر لوگوں کو بھی این آر او جرنیل ہی نے دیا تھا۔ ایک این آر او نے ہزاروں مقدمات دفن کیے تھے، ہزاروں لوگوں کے قاتلوں کو معاف کیا گیا تھا، این آر او کو تو جرم قرار دینا چاہیے ملے گا یا نہیں ملے گا کی بحث نہیں ہونی چاہیے۔ بات صرف این آر او کی نہیں ہے، ایک دن کہا کہ بیشتر سیاستدان چور ہیں، وہ کسی دس کا نام تو بتادیں اور ثابت بھی کریں۔ اور وہ 50 مرغے کون ہیں جن کو وہ اندر کرنا چاہتے ہیں ان کے نام بتادیں، ظاہر ہے ایسی باتوں سے ماورائے قانون فیصلوں کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔ اس سے عدالتی نظام کی بدنامی ہوتی ہے۔ ایک دعویٰ زمانہ کنٹینری میں کیا گیا تھا کہ دو سو ارب روپے سوئس بینکوں میں ہیں جس دن حکومت میں آؤں گا اگلے دن پیسا واپس لاؤں گا لیکن اب تو وہ دعویٰ مذاق میں اڑ رہا ہے۔ ملک کا پیسا باہر چلا گیا اس کا بھی بہت ذکر سنتے تھے، وزیراعظم اس کا بھی بہت دعویٰ کرتے تھے کہ باہر کے ملکوں سے پیسا لاؤں گا۔ لیکن جب چیف جسٹس پاکستان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بیرون ملک جائداد رکھنے والے 20 پاکستانیوں کو پیش کیا جائے تو اٹارنی جنرل نے فرمایا کہ ان لوگوں کو گرفتار نہیں کرسکتے، تو پھر اس قسم کے دعوے کیوں کرتے ہیں۔ اس کا جواب اٹارنی جنرل کے پاس ہے نہ وزیراعظم کے پاس اور نہ ہی وفاقی وزیر اطلاعات کے پاس۔ ان کو تو ایک ہی کام آتا ہے ٹی وی پر آئے بیان داغا اور یہ جا۔۔۔ وہ جا۔ لیکن ایک ٹی وی چینل پر پھنس گئے کہ اس سوال کا جواب ہی نہیں بن پڑا کہ جو ادارہ 2015ء میں وجود نہیں رکھتا تھا اس کے ذریعے رقم نواز شریف کے ڈرائیوروں اور دیگر ملازموں کو ملتی تھی۔ جب کمپنی موجود نہیں تھی تو یہ رقم منتقل کیسے ہوگئی۔ اس پر وزیر موصوف کہنے لگے کہ یہ جے آئی ٹی رپورٹ میں ہے۔ اس پر اینکر نے پھر پوچھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ تو میرے سامنے ہے جس میں لکھا ہے کہ یہ کمپنی 2013ء میں ختم ہوچکی تھی۔ اس پر وزیر صاحب نے کہا کہ اچھا تو مجھے بھی جے آئی ٹی لانے کا کہہ دیتے۔ شاید ان کی رپورٹ الگ ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ وزیر موصوف نے اتنا بڑا دعویٰ جے آئی ٹی دیکھے بغیر کیسے کردیا۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کس نے کتنی کرپشن کی، اصل مسئلہ یہ ہے کہ چیف جسٹس عدالت بلارہے ہیں تو لوگوں کو پیش کیا جائے۔ آخر زچ ہو کر وزیر اطلاعات کہنے لگے کہ حسن یا حسین نواز شریف قسم اٹھائیں کہ ان کا باپ کرپٹ نہیں ہے تو مان جاؤں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ قسم بھی نہیں مانیں گے کیوں کہ فی الحال تو ان کا ہدف شریف خاندان ہے۔ 50 مرغے تو اس خاندان سے ہی پورے ہوجائیں گے، اگر وہ ہاتھ نہ آئیں تو اس سے زیادہ مرغے پی پی اور ن لیگ سے وہ اپنے پاس لے آئے ہیں، الیکٹ ایبل مرغے۔