آدھا این آر او تو ہوگیا

324

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جس میں حکمرانوں کے خلاف کوئی کارروائی ملک کے خلاف کارروائی قرار دی جاتی ہے اوراپوزیشن کوئی اتحاد بنائے تو وہ ملک کے خلاف تصور کیا جاتا ہے اور اگر اپوزیشن میں ہوں اور کوئی کارروائی کی جائے تو وہ بھی جمہوریت، آئین اور ملک کی سالمیت اور یکجہتی کے خلاف قرار دی جاتی ہے۔ سابق صدر آصف زرداری کے خلاف نیب اور دیگر ادارے موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے کے مقدمات میں گھیرا تنگ کررہے ہیں جس پر ہفتے کے روز آصف زرداری صاحب بھی برداشت کی حدود توڑتے ہوئے گویا پھٹ پڑے۔ انہوں نے ساری کارروائی کو 18 ویں ترمیم سے مشروط کردیا ہے یا یہ کہا ہے کہ جو بھی کچھ ہے 18 ویں ترمیم کا پھیلاؤ ہے۔ آصف زرداری صاحب کہتے ہیں کہ حکومت گرانا مشکل نہیں معاملہ ٹریڈنگ اکاؤنٹس کا نہیں بلکہ سارا جھگڑا 18 ویں ترمیم کا ہے۔ دشمنی مجھ سے ہے میرے دوستوں کو پکڑا جارہاہے۔ صرف یہ پوچھنے کے لیے ایک دوست کوفون کیا کہ فصل کیسی ہوئی تو اسے بھی اٹھالیا گیا۔ انہوں نے اس عقدے کو بھی کھول دیا کہ این آر او کس کو اور کیوں چاہیے کہتے ہیں ہمیں ضرورت نہیں مشرف کو ضرورت تھی۔ یہاں ایک پیغام بھی دیا ہے کہ نواز شریف کو میری ضرورت ہے اور نہ مجھے ان کی۔ حکومت گراکر ناکامیاں اپنے گلے نہیں لینا چاہتے۔ اور یہی بات درست لگتی ہے کہ آصف زرداری صاحب نے حکومت کو در حقیقت یہ پیغام دیا ہے کہ مجھے یا پیپلزپارٹی کو پی ٹی آئی کی حکومت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ حکومت نہیں گرائیں گے یہ بات پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ بھی کہہ چکے ہیں کہ آپ سکون سے حکومت کریں۔ ہم حکومت گرانے والے کسی کام میں شریک نہیں ہوں گے آج کل جو سیاسی گرما گرمی میڈیا کی وجہ سے نظر آرہی ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ آصف زرداری صاحب کے خلاف جو گرما گرما نظر آرہی ہے وہ حکومت کے لیے ایک سیفٹی والو کی حیثیت رکھتی ہے۔ آصف زرداری صاحب پر جتنا دباؤ ڈالیں گے وہ میاں نواز شریف سے اتنا ہی دور ہوتے جائیں گے اور سب حکومت کے مفاد میں ہے۔ چنانچہ زرداری صاحب نے یہ کہہ کر کہ مجھے نواز شریف کی ضرورت نہیں حکومت کو پیغام دیا ہے کہ آپ اپناکام کرتے رہیں۔ لہٰذا شہباز شریف کو ایک اور مقدمے میں گرفتار کرنے کا عندیہ دے دیا گیا ہے۔ فی الحال تو میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کی اے پی سی میں شرکت سے معذرت کی ہے۔ اسے حکومت کی کامیابی سمجھا جائے یا اپوزیشن کی حکمت عملی لیکن فی الحال صورت یہ ہے کہ مسلم لیگ تو اے پی سی میں شریک ہوگی لیکن نواز شریف نہیں۔ تاہم زرداری صاحب کے دعوؤں اور 18 ویں ترمیم کے تعلق پر غور کریں تو بات بہت واضح لگتی ہے اور آنے والے دنوں میں یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ سارا معاملہ 18 ویں ترمیم کا ہے یا نہیں۔ یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے کیونکہ وفاقی حکومت کا تین صوبوں پر تو کنٹرول ہے اسے اب سندھ پر بھی کنٹرول چاہیے اس کا طریقہ 18 ویں ترمیم کا خاتمہ ہے۔ یہ ترمیم نہ جمہوریت ہے اورر نہ اس کے خاتمے سے جمہوریت ختم ہوگی۔ اگر قومی اسمبلی میں اکثریت اسے ختم کرنا چاہے تو یہ ختم ہوسکتی ہے اور دو تہائی اکثریت کے لیے پی ٹی آئی اور پی پی تعاون ناگزیر ہوگا۔ یوں پی ٹی آئی کو بھی این آر او مل جائے گا۔ آدھا این آر او تو آصف زرداری صاحب نے دے دیا ہے یہ کہہ دیا کہ حکومت نہیں گرائیں گے۔ نواز شریف کی ضرورت نہیں۔ بہر حال آصف زرداری صاحب کو یہ وضاحت بھی کردینی چاہیے کہ اگر جنرل پرویز مشرف کو این آر او کی ضرورت تھی تو انہیں کس نے این آر او دیا۔ کس نے ملک سے جانے،یا کس نے گارڈ آف آنر دیا؟؟ یہ بات سب جانتے ہیں کس نے یہ خدمت انجام دی۔ اور یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ کسی دوست کو فون کرکے یہ پوچھا جائے کہ فصل کیسی ہوئی۔ اس پر اسے اٹھالیا جائے۔ اگر وہ فون کال سامنے لائی جائے تو پتا چلے گا کہ کون سی فصل۔ کیونکہ فصلیں تو قسم قسم کی ہوتی ہیں۔ ممکن ہے اومنی گروپ کی فصل کا پوچھا ہو۔ ٹریڈنگ اکاؤنٹس کی فصل کا پوچھا ہو۔ یہ کام تو تحقیقاتی اداروں کا ہے وہ ثابت کریں کہ کیا سوال تھا اور کس سے تھا۔ آصف زرداری نے اپنی گرفتاری کے خدشات بھی ظاہر کیے ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہو بھی جائے۔ ان کی گرفتاری کسی بڑے اپوزیشن اتحاد کو روکنے کی ضمانت بھی ہوگی۔ اس ساری سیاسی گرما گرمی پر امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے تبصرہ کیا ہے کہ اس کا تعلق عوام کے مسائل سے نہیں ہے۔ یہ سیاسی گروپوں کا مسئلہ ہے۔ عوام کے مسائل تو مزید بڑھ رہے ہیں اور ان گروپوں کو اس کی فکر نہیں۔ انہوں نے اس کا حل تجویز کیا ہے کہ مسائل کا حل صرف اسلامی نظام میں ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں، مقدر قوتوں اور عوام، کسی کی ترجیحات میں اسلامی نظام نہیں ہے۔ کہتے سب ہیں۔ لیکن اس جانب پیش رفت کے لیے کوئی تیار نہیں۔ پھر ایسا ہی ہوتا رہے گا جیسا ہورہاہے۔