عزت مآب عادل اعظم میاں ثاقب نثار کا فرمان ہے کہ حکومت اور عدلیہ نے احتساب کا نعرہ لگایا مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات کے سوا کچھ نہ نکلا۔ چیف صاحب! نعرہ تو نعرہ ہی ہوتا ہے جس کا مقصد عوام کے جذبات سے کھیلنا ہوتا ہے۔ ہمارا قومی المیہ یہی ہے کہ ہم نعروں سے بہل جاتے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل غالباً پہلا نعرہ ’’قندھار چلو‘‘ لگایا تھا وہ دن اور آج کا دن ہم نعروں کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں کبھی ’’کراچی چلو‘‘ کبھی ’’پشاور چلو‘‘ اور کبھی ’’لاڑکانہ چلو‘‘ کے نعروں ہی پر چل رہے ہیں۔ عدلیہ بھی مختلف نعروں سے قوم کو بہلاتی رہتی ہے مگر عمل درآمد اور کارکردگی یہاں بھی ممنوع سمجھی ہے۔ چیف صاحب کا استفسار ہے۔ ’’کیا عدلیہ گند صاف کرے گی‘‘۔ بندہ پرور! شفافیت عدلیہ کی بنیادی ذمے داری ہے، ظاہری صفائی تو حمام میں بھی ہوسکتی ہے مگر باطن اور گندگی تو عدلیہ ہی صاف کرسکتی ہے۔ گستاخی معاف! اگر عدلیہ اپنی ذمے داری نبھانے میں تساہل اور تاخیر کی مرتکب نہ ہو تو معاشرہ آئینے کی طرح صاف و شفاف ہوجائے۔ جہاں انصاف کا علم سربلند ہو وہاں جرائم کے پرندے نہیں اُترتے۔
ہم ایک مدت سے یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ نظام عدل درست ہوجائے تو ہر ادارہ راہ راست پر گامزن ہوجائے گا۔ مگر ہمیں سیاست دانوں کی طرح بیانات کی آکسیجن دی جاتی ہے پاکستان کے ہر چیف جسٹس نے پرانے مقدمات کو نمٹانے کے لیے مدت کا تعین کیا ہے مگر عمل درآمد کی توفیق کسی کو نہ ہوئی، سبھی نعرے بازی کے سہارے اپنی ملازمت کی مدت پوری کرتے رہے، موجودہ چیف جسٹس بھی انہی کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ فرماتے ہیں، ججز دیانت داری سے اپنی ذمے داری پوری کریں تو عدالتی ڈھانچہ درست ہوسکتا ہے۔ لوگ انصاف مانگ رہے ہیں، ججز پیشیاں دے رہے ہیں، ججوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ وہ جو تنخواہ لے رہے ہیں کیا اس کا حق بھی ادا کررہے ہیں؟ مقدمات کو تاخیر کے جہنم میں جھونکنا خود کو جہنمی بنانے کے مترادف ہے۔ چیف صاحب کا یہ فرمان قابل توجہ ہے کہ جس نظام کا ڈھانچہ جھوٹ اور بددیانتی پر استوار ہو وہاں خاک کارکردگی دکھائی جاسکتی ہے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جھوٹ اور بددیانتی کے ڈھانچے کو درست کرنا کس کی ذمے داری ہے؟ اور اس کوتاہی کا مرتکب کون ہورہا ہے؟۔ چیف صاحب کا یہ ارشاد گرامی نامی گرامی شخصیات کے لیے غور طلب ہے کہ ایک جج پر روزانہ 55 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں، گویا ایک جج ساڑھے سولہ لاکھ ہر ماہ قومی خزانے سے لیتا ہے اور تن خواہی کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ توہین عدالت کا خوف نہ ہوتا تو ہم یہ پوچھنے کی جسارت کرتے کہ اس خوف ناک پیش منظر میں عدلیہ کا کیا جواز ہے؟۔
چیف صاحب کا فرمان ہے کہ پاکستان کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئی ہیں، ہمیں ان قربانیوں کا احترام اور اعتراف کرنا چاہیے اگر پاکستان نہ ہوتا تو وہ چیف جسٹس نہ ہوتے چھوٹے موٹے وکیل ہوتے، بجا فرمایا۔ پاکستان نہ ہوتا تو آپ چیف جسٹس نہ ہوتے، عمران خان وزیراعظم نہ ہوتے۔ ایک ٹی وی چینل پر سوال کیا گیا کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا اور ہم نے پاکستان کو کیا دیا۔ ملازمت کے لیے دربدر کے دھکے کھانے والے ایک جوان نے کہا، ہم نے پاکستان کو ایٹم بم دیا اور پاکستان نے ہمیں منشا بم دیا۔ نوجوان کا جلا کٹا اور دل آزار جواب سن کر ایک بزرگ نے کہا۔ ’’بیٹا! پاکستان نے ہمیں ایک آزاد اور خود مختار قوم کا درجہ دیا، پاکستان کا یہ احسان کیا کم ہے کہ ہمارے گلے میں پڑا غلامی کا طوق اُتر گیا ہے۔ پاکستان کو بُرا مت کہو، خرابی کی جڑ سیاست دان ہیں‘‘۔ سیاست دان پاکستان کی بدولت ہی ہم پر مسلط ہیں، پاکستان نہ ہوتا تو کوئی میٹر ریڈر ہوتا، کوئی کلرک ہوتا، کوئی سبزی فروش ہوتا، کوئی اناج بیچ رہا ہوتا، کوئی چپڑاسی ہوتا، کوئی موذن ہوتا، کوئی امام مسجد ہوتا، کوئی دیگ پکارہا ہوتا، کوئی حجامت کررہا ہوتا۔ اب یہ ایک الگ بات ہے کہ سیاست نے انہیں بغیر استرے کے سر مونڈنے اور چمڑی اتارنے کا ہنر بھی سیکھا دیا ہے۔ نوجوان کی بات سن کر بزرگ کی آنکھیں نم ہوگئیں، وہ سر جھکا کر چلے گئے اور نوجوان سر جھکا کر سسکیاں بھرنے لگا۔