اوئے

292

 

 

سوشل میڈیا پر آج کل ایک کلپ وائرل ہے۔ ایک سرخ سفید، موٹا، کیوٹ سا پٹھان بچہ اپنی ٹیچر کو اوئے کہہ کر بلا رہا ہے۔ اس بچے کی کیوٹنس نے دھوم مچادی۔ کیوٹ سے مراد ہوشیار، طرار، پیارے، جاذب نظر، خوبصورت اور پر کشش کے ہیں۔ کلپ میں ٹیچر بچے سے باتیں کررہی ہیں، ویڈیو بنا رہی ہیں۔ جو اس نے سوشل میڈیا پر ڈال دی جہاں ویڈیو نے پسندیدگی کے ریکارڈ قائم کردیے۔ ٹیچر بچے سے شرارت کرتے ہوئے اس کا بیگ لینا چاہتی ہے جس پر بچے کا ردعمل بہت قہقہہ بار ہے۔ چھوٹی سی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بچہ کہتا ہے ’’یہ میرا بستہ ہے‘‘۔ مس کہتی ہے ’’کیسے تمہارا بستہ ہے‘‘۔ اس پر بچے کا کھینچ کر اوئے پکارنا اور انگلی سے مس کو بستہ واپس کرنے کا کہنا بہت با مزہ ہے۔ مس کہتی ہیں ’’بیگ کا آپ نے کیا کرنا ہے‘‘۔ بچہ کہتا ہے ’’میں سبق پڑھوں گا‘‘۔ مس پوچھتی ہیں ’’سبق پڑھ کر کیا کرو گے‘‘۔ بچہ کہتا ہے ’’میں ڈاکٹر بنوں گا‘‘۔ اس پر بھی مس بستہ واپس نہیں کرتی تو بچہ کہتا ہے ’’میں تمہاری چھٹی بند کردوں گا‘‘۔ اس دوران بچے کا اعتماد، چہرے پر احتجاج کا رنگ، ہاتھ اٹھاکر بات کرنا اور اوئے پکارنا اتنا پر لطف ہے کہ ویڈیو دیکھ کر ہی اس کا لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔
بچے روشنی اور امید کا استعارہ ہیں۔ پروین شاکر نے کہا تھا:
جگنوکو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
پروین شاکر ہمارے عہد کے بچوں کو دیکھتیں تو نہ جانے کیا کہتیں۔ زمانے کے فرق کو بیان کرتے ہوئے ایک بچے نے کہا تھا ’’میری دادی تانگے میں بیٹھ جاتی ہیں مگر کار میں بیٹھنے سے ڈرتی ہیں۔ میری امی کار میں بیٹھ جاتی ہیں مگر جہاز میں بیٹھنے سے ڈرتی ہیں۔ میری گرل فرینڈ جہاز میں بیٹھ جاتی ہے مگر تانگے میں بیٹھنے سے ڈرتی ہے۔‘‘ بچوں سے احتیاط سے بات کرنی چاہیے۔ آج کل کے بچے پیدا ہونے سے پہلے نہ جانے کہاں وقت گزار کر آتے ہیں کہ انہیں سب پتا ہوتا ہے۔ ایک مس نے بچوں کو بتایا ’’آپ کو پتا ہے بچے کہاں سے آتے ہیں۔ ایک فرشتہ آسمان سے اپنے سنہرے پروں میں بچہ لیے آتا ہے اور ماں کی ریشمی آغوش میں دے کر چلا جاتا ہے۔‘‘ بچے قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔ مس نے حیرت سے پوچھا ’’کیوں ہنس رہے ہو؟‘‘ ایک بچہ بولا ’’مس آپ کو تو کچھ بھی نہیں پتا۔‘‘ ہمارے عہد کے بچے جو باتیں کرتے ہیں وہ گزشتہ ادوار کے بچوں تو کیا بڑوں کے بھی وہم وگمان میں نہیں ہوں گی۔ ایک بچے نے اپنے والد سے کہا ’’ابو یہ زندگی جو ہم جی رہے ہیں یہ سچ ہے یا پھر کوئی ڈائنوسار ہمیں اپنے خواب میں دیکھ رہا ہے۔‘‘ مولوی صاحب نے نماز پڑھاتے ہوئے بچوں سے کہا ’’کسی کا پاؤں صف سے آگے نہ نکلے‘‘۔ ایک بچے نے کہا ’’اس کا مطلب ہے نماز میں بھی نو بال ہوجاتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے بچے سے کہا ’’بیٹا رات کو پیاز نہ کھایا کریں‘‘ بچے نے جواب دیا ’’انکل پیٹ میں پیاز کو کیا پتا دن ہے کہ رات ہے۔‘‘
ہمارے معاشرے میں اوئے کے اولین مخاطب وہ ’’چھوٹے‘‘ ہیں جو ہوٹلوں، چائے کی دکانوں، ورکشاپوں اور بسوں کے اڈوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ اینٹیں، قالین، چوڑیاں، چمڑا، آلات جراحی اور کوئلے کی کان کنی کے لیے ہمارے ہاں سب سے زیادہ موزوں بچے ہی تصور کیے جاتے ہیں۔ جہاں چاروں طرف سے انہیں اوئے اوئے کہہ کر بلایا جاتا ہے۔
فرشتے آکر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
ایوان اقتدار میں اوئے کا مخاطب وزیر اعظم ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے ’’اوئے خبردار جو خارجہ پالیسی اور دفاعی امور کے نزدیک پھٹکا۔‘‘ عدالتیں آواز لگاتی ہیں ’’اوئے فلاں سودے میں اتنے پیسے خرچ ہوئے تھے باقی پیسے کہاں ہیں‘‘۔ جی ایچ کیو صدا لگاتا ہے ’’اوئے پہلے بریفنگ لے لے بعد میں کسی معاملے میں بولنا‘‘۔ اپوزیشن آنکھیں دکھا تی ’اوئے کیا کررہا ہے پہلے ہماری بات سن ورنہ ساس کی طرح رگڑ دیں گے‘‘۔ اتحادی ویٹروں جیسا سلوک کرتے ہیں ’’اوئے پہلے ہماری طرف کا پنکھا اسٹارٹ کردے۔‘‘ کابینہ ’’اوئے اونٹ کو رکشے میں بٹھا‘‘ کا مطالبہ کرتی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اگلے الیکشن ہانکا لگاتے ہیں ’’اوئے دوبارہ عوام کے پاس جانے کی تیاری کرلے۔‘‘ وزیر اعظم کے پاس اختیارات تو سکندر اعظم جیسے ہوتے ہیں لیکن حال یہ ہوتا ہے کہ سکندر اعظم بھی ہو تو کچھ نہ کرسکے۔
وزیر اعظم عمران خان کی کا میابی میں ’’اوئے‘‘ کا بہت دخل ہے۔ ’’اوئے نواز شریف، اوئے شہباز شریف‘‘۔ اوئے کے کلچر کو فروغ دینے میں عمران خان کا بہت ہاتھ ہے۔ وقت برا ہو تو چودھری نثار جیسی پچیس سالہ رفاقت رکھنے والابھی ’’اوئے نواز شریف‘‘ کہہ کر خطاب کرسکتا ہے۔ اوئے کو جو عروج خادم حسین رضوی نے عطا کیا وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ صدر ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’اوئے ٹرمپ، اوئے چوڑے، ٹرمپ دی ماں نہ مرگئی تے گل کرنا۔‘‘ اوئے مذاق اور تضحیک کے طور پر استعمال ہونے والا لفظ ہے جو ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ گاہے یہ حیرت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ 25جولائی کے انتخابات میں تحریک انصاف کو حاصل ہونے والی کامیابی خود عمران خان کے لیے بھی حیرت انگیز تھی۔ تحریک انصاف کے ایک ایم این اے بنی گالہ پہنچے تو عمران نے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا ’’اوئے تم بھی جیت گئے۔‘‘ اوئے شرم دلانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ’’اوئے تمہیں شرم نہیں آتی۔‘‘ اس سماج میں قدم قدم جی جناب اور اوئے کی تقسیم ہے۔ ایک بڑی سی لینڈ کروزر سے اترنے والا پولیس والے کو اوئے کہہ کر بلاتا ہے۔ وہی پولیس والا پاس سے گزرتے ریڑھی والے کو اوئے کہتا ہے۔ اوئے اپنے سے غریب کے لیے ہوتا ہے۔ طاقتور کو ہم جی جناب کہہ کر بلاتے ہیں۔ غربت، افلاس اور بے چارگی ’’اوئے‘‘ ہے۔ ایک مسلمان کے لیے اصل مسئلہ یہ ہے کہ قیامت کے دن فرشتے اسے اوئے کہہ کر مخاطب نہ کریں بلکہ اس کی خدمت میں جی جناب سے پیش آئیں۔
اوئے اب ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ ہمارے جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ اوئے کہنا یقیناًایک اخلاقی رویہ نہیں ہے۔ کسی بچے کا بڑے کو اوئے کہہ کر بلانا بدتہذیبی ہے لیکن سوشل میڈیا پر چھڑ جانے والی اس تنقید کا ہمیں کوئی جواز نظر نہیں آتا جس میں ننھے احمد کے اوئے کو بدتمیزی میں شمار کیا گیا ہے۔ اس صورت میں جب کہ ٹیچر اور مارننگ شو کی میزبان چسکے لینے کے لیے اسے اوئے کہنے پر مجبور کررہی ہے۔ بدتمیزی بے ہودگی کے مترادف ہے۔ ننھا احمد کہیں بے ہودگی کا مظاہرہ نہیں کررہا ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اپنا بستہ چھن جانے پر وہ رو رہا ہے اور نہ آنسو بہارہا ہے بلکہ احتجاج کررہا ہے۔ اس دوران اس کا اعتماد دیکھنے کے قابل ہے۔ وہ اس عہد کا بچہ ہے جس نے تین سال کی عمر ہی میں ڈاکٹر بننے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ نہ جانے ہمیں کیا ہوگیا ہے سنجیدگی کی باتوں کو ہم مذاق میں اڑا دیتے ہیں اور مذاق کی باتوں پر ہم سنجیدہ ہوجاتے ہیں۔ بحث مباحثہ شروع کردیتے ہیں۔