آدمی بھی کتنا بے صبرا واقع ہوا ہے۔ اسے کسی پَل چین نہیں آتا، گرمیاں ہوں اور ذرا طول کھینچ جائیں تو وہ سردی کے لیے بلکنے لگتا ہے۔ سردی میں ہاتھ پاؤں ٹھٹھرنے لگیں، جسم قلفی بن جائے اور دُھند کے سبب کئی کئی دن تک سورج دیکھنا نصیب نہ ہو تو آدمی گرمی کے لیے بے چین ہو جاتا ہے، اسے آگ برساتا سورج اور پسینے میں ڈوبی ہوئی دوپہر یاد آنے لگتی ہے۔ اب کی دفعہ لوڈشیڈنگ نے گرمی ویسے بھی وبالِ جان بنادی تھی اس لیے اکتوبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی دل سردی کی آہٹ سننے کے لیے بے تاب ہوگیا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب پاکستان بنا تو سرکاری دفاتر کے اوقات کار موسم سرما میں اور موسم گرما میں اور ہوا کرتے تھے۔ موسم سرما سرکاری طور پر پندرہ اکتوبر سے اور موسم گرما پندرہ اپریل سے شروع ہوتا تھا۔ دونوں موسموں میں اوقات کار کے درمیان ایک گھنٹے کا فرق تھا۔ گرمیوں میں دفاتر ایک گھنٹے پہلے لگتے تھے اور سردیوں میں ایک گھنٹے بعد۔ سرما اور گرما کے یہ اوقات کار انگریز ورثے میں چھوڑ گیا تھا جس پر مدتوں عمل ہوتا رہا۔ پھر جنرل ایوب خان کے دور میں سرکاری اوقات کار ہر موسم کے لیے یکساں کردیے گئے یعنی صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک۔ یہی اوقات کار نجی کمپنیوں اور کاروباری اداروں میں بھی نافذ تھے اور اس پر گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے عمل ہورہا تھا کہ عمرانی حکومت نے اسے بھی تبدیل کردیا ہے، اب سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح نو تا شام پانچ کردیے گئے ہیں۔ سردیوں میں شام پانچ بجے مغرب ہوجاتی ہے اور اندھیرا چھا جاتا ہے۔ نچلے درجے کے جو ملازمین اپنا بڑا کنبہ پالنے کے لیے سرکاری ملازمت کے علاوہ پارٹ ٹائم جاب بھی کرتے تھے وہ ان دنوں بڑی مشکل میں ہیں اوپر سے مہنگائی کے سونامی نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔
لیجیے صاحب بات سردی، گرمی اور آدمی کی بے صبری سے چلی تھی کہ مہنگائی تک جا پہنچی۔ یہ وہ رونا ہے جو اس وقت ہر شخص رو رہا ہے۔ بقول غالبؔ
ہر چند ہو مشاہدۂ حسن کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
موضوع کوئی بھی ہو تان مہنگائی پر ہی ٹوٹتی ہے۔ عمران خان مہنگائی کے ستائے عوام کی اُمید بن کر اقتدار میں آئے تھے ان کا دعویٰ تھا کہ وہ حکومت سنبھالتے ہی لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لا کر عوام کے قدموں میں ڈھیر کردیں گے اور دولت کی وہ ریل پیل ہوگی کہ مہنگائی منہ چھپائے پھرے گی لیکن عوام کی بدقسمتی! لوٹی گئی دولت تو واپس نہ آئی، مہنگائی کا سونامی آگیا جس میں وہ ڈبکی لگا رہے ہیں اور عمران خان کشکول اُٹھائے دُنیا سے خیرات مانگتے پھر رہے ہیں۔ لو جی ہم پھر بہک گئے، بات موسم کی ہورہی تھی۔ 15 اکتوبر سے واقعی رُت بدلنے لگتی ہے اَب کی دفعہ بھی ایسا ہی ہوا، اچانک بادل گھِر آئے، ہلکی بارش ہوئی، ٹھنڈی ہوا چلنے لگی اور گرمی منہ چھپا کر ایک کونے میں کھڑی ہوگئی کہ موقع ملا تو پھر چھاپا مار دے گی ورنہ منہ چھپائے رُخصت ہوجائے گی۔ بارش کے ساتھ ہی پہاڑوں پر برفباری کی خبر بھی آگئی، ہم پنجاب کے نیم پہاڑی علاقے کہوٹا میں رہتے ہیں جو مری کے پڑوس میں واقع ہے، الیکشن کمیشن نے کہوٹا اور مری کو ایک ہی انتخابی حلقے میں باندھ رکھا ہے۔ یہ انتخابی حلقہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا آبائی حلقہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہیں سے ان کے والد خاقان عباسی بار بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے، وہ اوجڑی کیمپ کے سانحہ میں شہید ہوگئے تو یہ نشست ان کے بیٹے شاہد خاقان کو ورثے میں مل گئی اور کوئی اس وراثت کو چیلنج نہ کرسکا لیکن حالیہ انتخابات میں زبردست اَپ سیٹ ہوگیا اور تحریک انصاف کے صداقت عباسی نے یہ معرکہ سَر کرلیا۔ انہوں نے اِتنے بڑے مارجن سے اپنے حریف کو شکست دی کہ شاہد خاقان دھاندلی کا واویلا بھی نہ کرسکے اور اپنی ہار خاموشی سے قبول کرلی۔ اب ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) نے انہیں لاہور سے جتوا کر ان کے زخموں پر پھایا رکھا ہے۔ خیر چھوڑیے اِس قصّے کو، موسم کی بات کرتے ہیں، مری، گلیات، سوات، کاغات اور ناران میں موسم سرما کی پہلی برفباری نے کہوٹا میں بھی موسم کو ٹھنڈا ٹھار کردیا ہے۔ سردی پہاڑوں سے نیچے اُتر کر آہستہ آہستہ قدم جما رہی ہے، صبح اِتنی تیز اور ٹھنڈی ہوا چلتی ہے کہ جرسی یا کوٹ پہنے بغیر گزارا نہیں ہوتا، نماز فجر میں لوگ چادروں میں لپٹے نظر آتے ہیں، سورج جو ابھی دس پندرہ دن پہلے آگ برسا رہا تھا اب بہت شفیق اور مہربان ہوگیا ہے۔ دھوپ بدن سے کھیلتی ہے تو ایک تازگی اور راحت کا احساس ہوتا ہے، ڈاکٹر کہتے ہیں کہ دھوپ میں وٹامن ڈی ہوتا ہے اور سردیوں میں بدن پر دھوپ کی ٹکور وٹامن ڈی کی کمی پوری کردیتی ہے۔ جن لوگوں کی کمر اور گھٹنوں میں درد رہتا ہے ان کے لیے سردیوں کی دھوپ اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ ابھی چند دنوں تک دوپہر میں تمازت ہے پھر یہ تمازت بھی ختم ہوجائے گی اور دن کے بارہ ایک بجے بھی دھوپ میں بیٹھنا اچھا لگنے لگے گا۔ ہاں راتیں اِن دنوں بھی کافی سرد ہوگئی ہیں، بیڈ روم کا دروازہ اور کھڑکی بند کرنے کے باوجود اکہرے کمبل میں سردی لگتی ہے۔ کل ٹیلی فون پر کراچی میں اپنے ایک عزیز سے بات ہوئی اور انہیں بتایا کہ ہمارے ہاں تو سردی دھم سے آ کودی ہے اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں بھی سردی پہاڑوں سے اُتر کر آہستہ آہستہ قدم رکھ رہی ہے۔ تو کہنے لگے آپ خوش قسمت ہیں ہم تو ابھی تک گرمی میں جھلس رہے ہیں، رات میں بھی پنکھے کے بغیر گزارا نہیں ہوتا، ہم نے ہنس کر کہا کہ یہ خوش قسمتی بھی چند دنوں تک ہے جب کڑاکے کی سردی پڑے گی تو کراچی پر رشک آئے گا، کم از کم وہاں سردی میں ٹھٹھرنا تو نہیں پڑتا۔