اچھے موسموں کی امید

260

معاشی اعتبار سے اس وقت پاکستان کی حالت یہ ہے کہ اس کے پاؤں زمین پر نہیں اور فوری طور پر پاؤں رکھنے کی جگہ درکار ہے۔ باقی سب کام صرف اس صورت میں ممکن ہیں جب پاؤں زمین پر یا پاؤں تلے زمین کا مرحلہ گزر جائے گا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ اچھے دنوں کے ساتھی سب ہوتے ہیں اور دوست کی پہچان برے دنوں میں ہوتی ہے۔ آج معاشی تنگ دستی کے لمحوں میں پاکستان بطور قوم انہی حالات کا سامنا کررہا ہے۔ اچھے دنوں میں ساتھ ہنسنے والے برے دنوں میں نظریں ملانے پر بھی تیار نہیں۔ حد تو یہ کہ کئی ایک ایسے ہیں جو مشکلات کو بڑھانے میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ امریکا ان میں سر فہرست ہے جو ایک طرف کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقمیں روک چکا ہے اور آئی ایم ایف کو پاکستان کو قرض دینے کے حوالے سے خشمگیں نگاہوں سے گھور رہا ہے۔ جو دھمکانے ہی کا ایک انداز ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کے روایتی اور آزمودہ دوست ہی امید کی کرن ثابت ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب اور چین ان میں سر فہرست ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ سعودی عرب کے دوران ہونے والے معاہدات کے بعد ملکی معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہورہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے سعودی فرماں روا شاہ سلمان اور شہزادہ محمد بن سلمان سے خصوصی ملاقاتیں کرنے کے علاوہ بزنس کمیونٹی اور سرمایہ کاروں کی ایک بڑی کانفرنس میں شرکت کی۔ دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی حکومت نے پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے مجموعی طور پر بارہ ارب ڈالر کے پیکیج کا اعلان کیا۔ جس کے مطابق سعودی عرب پاکستان کو تین سال تک تین ارب ڈالر کا تیل ادھار فراہم کرتا رہے گا۔ سعودی عرب پاکستانی بینکوں میں تین ارب ڈالر ز بھی رکھے گا۔ یہ معاہدات تین سال کے لیے ہوں گے اور تین سال بعد ان کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ سعودی عرب نے پاکستان میں آئل ریفائنری کے قیام پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ بلوچستان میں معدنیات میں بھی دلچسپی ظاہر کی گئی۔ دورے کے دوران سعودی عرب میں کام کرنے والے ورکرزکی ویزا فیس کم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی آئندہ تین سال کے دوران پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو چار کروڑ نوے لاکھ ڈالر کی گرانٹ اور قرض دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ آذربائیجان نے پاکستان میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے دس کروڑ ڈالر قرض دینے کی پیشکش ہے۔
وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب اور وہاں ہونے والے معاہدات کے فوراً بعد ہی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں ایک روپے کی کمی آگئی جس کے ساتھ ہی بیرونی قرضوں میں ایک سو اسی ارب کی کمی آگئی۔ یہ تمام اشارے پاکستانی معیشت کے بھنور سے نکل آنے کا پتا دے رہے ہیں۔ ابھی تک ملکی معیشت آکسیجن ٹینٹ پر چل رہی تھی اور بیرونی دنیا اور سرمایہ کار پاکستانی نظام میں کرپشن کے عنصر کے باعث نہ تو امداد میں دلچسی رکھتے تھے اور نہ سرمایہ کار یہاں آنے پر آمادہ تھے۔ کرپشن کے خلاف جاری مسلسل مہم نے بیرونی ملکوں اور سرمایہ کاروں کو ایک اعتماد عطا کیا ہے۔ اب وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ پاکستان کے ساتھ تجارت اور تعاون کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ معیشت میں بہتری کے ساتھ ہی پاکستان کی آئی ایم ایف کے ساتھ بارگیننگ پوزیشن بھی مضبوط ہو گئی۔ امریکا پاکستان پر نامہربان ہے اور آئی ایم ایف بھی امریکا کے گہرے اثرات کی زد میں ہے اس لیے پاکستان کو قرض دیتے ہوئے آئی ایم ایف کی شرائط بہت کڑی دکھائی دے رہی تھیں۔ ایک اطلاع تو یہ بھی تھی کہ آئی ایم ایف نے امریکا کے اشارے پر پاکستان کو ایٹمی پروگرام ختم کرنے اور ایٹمی اثاثے عالمی طاقتوں کے حوالے کرنے کے بدلے ایک معقول رقم دینے کی شرط بھی رکھی تھی۔ یہ بات پوری طرح درست نہ بھی ہو مگر امریکا زدہ آئی ایم ایف کی شرائط اس سے زیادہ مختلف بھی نہیں ہوسکتیں۔ آج بھی امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور میزائلوں پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ تمام دنیا اور ایٹمی توانائی ایجنسی بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو بین الاقوامی معیار کے عین مطابق قرار دے چکے ہیں اس کے باوجود امریکا اس معاملے کو موضوعِ بحث بنا کر اپنے اندر کے بغض کا اظہار کر رہا ہے۔
بدعنوان عناصرکے خلاف کریک ڈاؤن اور پاکستان کی معیشت میں بہتری کا یہ سفر پہلو بہ پہلو جاری رہنا چاہیے۔ پاکستان کی معیشت کی اُکھڑی سانسیں بحال ہونے کے آثار پیدا کیا ہوئے مختلف حلقوں سے بہت دلچسپ مگر عجیب آوازیں اُٹھنے لگیں۔ ایسی ہی ایک آواز یہ تھی کہ اس مرحلے پر ہمیں امداد اور تعاون کے بجائے استنبول میں مبینہ طور پر قتل ہونے والے صحافی جمال خاشق جی کے قتل پر اظہار مذمت کرنا چاہیے تھا۔ جمال خاشق جی کے ساتھ جو ہوا ظلم تھا اور سعودی حکومت اس کی مذمت کر چکی ہے اور یہ طاقت کی ایک کشمکش اور کھیل ہے جس میں پہلے سے عذابوں میں مبتلا مشرق وسطیٰ کے لیے کوئی اچھا پیغام نہیں مگر دنیا میں روزانہ بے گناہ بے دردی سے قتل ہوتے ہیں۔ ریاستیں، ایجنسیاں، دہشت گرد اور نامعلوم افراد صحافیوں سمیت مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کو قتل کرتے ہیں مگر مغرب خاشق جی کی یاد میں آنسو بہا کر یہ ثابت کررہا ہے کہ وہ کسی کھیل کی زد میں آئے ہیں۔ ایک اور آواز یہ تھی کہ کہیں اس سعودی مدد کے بدلے یمن کی آگ میں اپنے ہاتھ جھلسانے تو نہیں جا رہے؟۔ اب تک پاکستان نے خود کو بہت کامیابی سے خلیج کی جنگوں کا براہ راست فریق بننے سے دور رکھا ہے۔ اکثر تو یہ رائے عامہ کی خواہشات کے عین مطابق تھا مگر کبھی کبھار رائے عامہ کے اُلٹے رخ چل کر اس آگ سے خود کو بچایا گیا۔
خلیج کی پہلی جنگ میں پاکستان کی رائے عامہ صدام حسین کی ہمنوا تھی۔ حکومت عدم مقبولیت کی لکیر پار کر گئی تھی اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کا دل بھی صدام حسین کی یاد میں دھڑک رہا تھا مگر نوازشریف کی حکومت نے خود کو اس جنگ سے بچائے رکھا۔ عراق کی دوسری جنگ میں بھی پاکستان نے اپنا دامن اس آگ سے بچایا اور اب یمن کے تنازعے میں بھی پاکستان خود کو ان شعلوں سے دور رکھے ہوئے ہے۔ یمن کی جنگ میں کودنا الگ بات ہے اور سعودی عرب کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری الگ معاملہ ان دونوں باتوں میں فرق روا رکھا جانا لازمی ہے۔ اسٹرٹیجک شراکت داری، باہمی تعاون اور اعتماد کا معاملہ ہے۔ اس لیے یہ سوچنا حماقت ہے کہ ایک طرف سعودی عرب دست تعاون دراز کرے تو دوسری طرف یمن پر برسانے کے لیے میزائل تھمائے؟۔ ایک دلچسپ اعتراض مولانا فضل الرحمان کا ہے کہ وزیر اعظم اپنے ملک کو سعودی عرب میں قلاش ظاہر کیا اور اپنے کپڑے بیرونی دنیا میں دھوئے۔ ہمارے یوٹوپیا کی بات الگ اگر اس وقت پاکستان کی پہچان ایک بدعنوانی میں لتھڑے ہوئے ملک کی ہے۔ ہم نے بیرونی امداد، خیراتی کاموں کے لیے آنے والی رقوم اور ریلیف کی اشیا میں ہاتھ کے کمالات دکھا کر اپنی بدعنوانیوں پر بار بار تصدیق کی مہریں ثبت کی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو اس بات کا یقین دلائے بغیر بات آگے بڑھ ہی نہیں سکتی کہ ہم اب احتساب کے راستے پر سچے دل کے ساتھ گامزن ہو چکے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ہم کب تک اس راہ پر دیانت داری سے چل سکتے ہیں مگر یہ تاثر دیے بغیر ہم سعودی عرب جیسے ملک سے کھجور کے دانے کی امداد بھی نہیں لے سکتے چہ جائیکہ باقی دنیا ہماری مدد کرے۔