تبدیلی مگر اتنی جلد بازی کیوں ؟ 

228

تبدیلی اور کیسی چاہیے؟ یہ سوال ان لوگوں سے ہے جنہیں تبدیلی نظر ہی نہیں آرہی۔ وہ نئی حکومت کو پرانی حکومت کی طرح دیکھ رہے ہیں ان کو یقین ہے کہ تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کی حکومت ماضی کی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں ہی کی طرح کی ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑا، صرف چہرے اور پارٹی تبدیل ہوئی ہے۔ بحیثیت قوم ہم ایماندار اور دیانتدار نہیں رہے، ہمیں اچھے برے کی تمیز بھی نہیں ہے۔ ہم چوں کہ اب قوم نہیں رہے بلکہ ایک ہجوم ہیں۔ ہجوم ایک دوسرے کی صحیح یا غلط باتوں کو دہراتا اور آگے بڑھاتا رہتا ہے سو ہم سب یہی تو کررہے ہیں۔ مثبت سوچ اور گفتگو سے ہم ڈرنے لگے ہیں۔ خصوصاً حکمرانوں کی تعریف کرنا تو ہم گناہ کبیرہ سمجھنے لگے ہیں۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ہے اس وقت سے اس کی بلا سوچے سمجھے برائی لوگوں کی عادت بن گئی ہے۔ یہ لوگ جو عمران خان کے ’’یوٹرن‘‘ کو بیان کررہے ہوتے ہیں اچانک اپنا موقف 90 ڈگری پر بدل دیا کرتے ہیں۔
ملک کی تاریخ میں اگر کسی حکومت نے صرف دو ماہ بعد وزیراعظم، وزراء اور اراکین قومی اسمبلی کے جہاز پر فرسٹ کلاس سفر کرنے پر پابندی عائد کی ہے تو وہ موجودہ حکومت ہے۔ اگر کسی جمہوری حکومت نے اپنے قیام کے صرف ایک ماہ بعد وزیراعظم، وفاقی وزراء اور اسپیکر کے صوابدیدی فنڈز ختم کیے ہیں تو وہ بھی عمران خان کی حکومت ہے۔ یہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ملکی اخراجات کم کرنے اور آمدنی میں اضافے کے لیے کوئی حکومت اس قدر فکرمند اور فعال نظر آرہی ہے تو وہ بھی تو یہی حکومت ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات کم کرنے اور لگژری گاڑیوں کی نیلامی کا کریڈٹ عمران خان کی حکومت کو جاتا ہے۔ سعودی عرب سے 6 ارب ڈالر کا پیکیج حاصل کرنے کا اعزاز بھی تو اسی حکومت کو جاتا ہے۔ قوم کو چاہیے تھوڑا صبر کرے۔ موجودہ حکومت کی بدقسمتی ہے کہ اسے حقیقی اور دو بڑی جماعتوں اور ان کے دیرینہ حمایتیوں پر مشتمل حزب اختلاف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو اس سے قبل بظاہر ایک دوسرے کی مخالفت والی سیاست کرتے رہے مگر دوستیاں بھی نبھاتے رہے۔ ان پارٹیوں کا ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا کردار دراصل منافقانہ کردار تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے تین بار اقتدار میں رہنے کے باوجود سرکاری شعبے میں کوئی ایک ایسا اسپتال تک قائم نہیں کیا جس میں وہ خود اپنا علاج کراسکیں بلکہ پہلے سے موجود اسپتالوں کی حالت بھی بہتر نہیں کرسکے۔
عمران خان کے پاس سیاست کا صرف 22 سالہ تجربہ ہے لیکن وہ اس لحاظ سے صف اول کے سیاستدانوں میں واحد ہیں جنہوں نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کیا ہے اور وہ بھی آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے۔ عمران خان اپنے خاندان میں واحد ہیں جو سیاست کررہے ہیں۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہیں شہرت اور دولت کی طلب نہیں ہے یہ دونوں چیزیں وہ اپنی جوانی میں کرکٹ سے حاصل کرچکے ہیں۔ عمران خان صرف دوستوں کی نہیں بلکہ انسانوں کی قدر کرتے ہیں جبکہ اپنے وطن پاکستان سے محبت کا اظہار انہوں نے 21 جون 2004 کو جمائما خان کو طلاق دیتے ہوئے کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ’’یہ طلاق جمائما کے پاکستان میں نہ رہنے کے ضد کی وجہ سے ہوئی کیوں کہ میں چاہتا تھا کہ جمائما اور میں پاکستان ہی میں رہیں کیوں کہ مجھے پاکستان سے بے انتہا محبت ہے اور میں اس کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ یاد رہے کہ عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد 25 اپریل 1996 میں رکھی تھی جبکہ عمران خان کی جمائما سے شادی 22 جون 1995 کو ہوئی تھی۔ یہودی خاندان میں شادی کے ایک ہی سال بعد سیاسی پارٹی بناکر عمران خان کے سیاست میں آنے پر مختلف اور منفی تبصرے بھی سامنے آئے تھے۔ لیکن کپتان عمران نے برطانوی جج کے سامنے یہ بیان دیتے ہوئے سب کو حیران کردیا تھا کہ طلاق کی وجہ ازدواجی تعلقات کی خرابی نہیں بلکہ جمائما کا عمران خان کو پاکستانی شہریت چھوڑکر برطانیہ میں رہنے کی شرط عائد کرنا تھا جسے عمران خان نے ماننے سے انکار کردیا تھا۔ برطانوی قانون کے تحت خاتون کی طرف سے طلاق لینے پر خاتون کی نصف جائداد شوہر کو دینے کی پابندی ہے لیکن عمران خان نے جمائما کی جائداد لینے سے انکار کرکے بھی سب کو حیران کردیا تھا۔ یہ جائداد 20 ارب ڈالر کے مساوی تھی۔ عمران خان نے بچوں کے بالغ ہونے تک اپنی والدہ کے پاس رکھنے کی شرط بھی بغیر کسی بحث کے مان کر جمائما کو مجبور کردیا تھا کہ وہ انہیں آخری بار گلے لگالے۔ بہرحال یہاں غور طلب بات صرف یہ ہے کہ جو شخص اپنے ملک کی خاطر اپنے بیوی بچوں کو اپنے سے دور کرسکتا ہے اس کی حب الوطنی پر شک کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے۔