آسیہ کیس فیصلہ: وزیراعظم کا قوم سے خطاب، کیا حکومت کو خطرے کی بو آرہی ہے ؟ 

340

کراچی (تجزیہ: محمد انور) وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے منگل کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے حکم پر آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا حکم منسوخ کیے جانے پر عدالت کا نام لیے بغیر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور بدھ کو وزیراعظم عمران خان قوم سے ہنگامی خطاب کرتے ہوئے توہین رسالت کی مرتکب آسیہ ملعونہ کے مقدمے کے فیصلے کے حوالے سے اسی اعلیٰ عدالت کے فیصلے کی حمایت کررہے تھے۔ 3 ماہ کی مختصر مدت میں وزیراعظم عمران خان کے قوم سے چوتھے ہنگامی خطاب سے یہ تاثر قائم ہوگیا ہے کہ حکومت اپنے مستقبل کے حوالے سے شاکی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے آسیہ بی بی کیس سے متعلق عدالت عظمیٰکے فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے ججز نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فیصلے پر ملک میں ایک چھوٹے سے طبقے نے اپنا رد عمل دیا اور ججز کو قتل کرنے اور فوج اور ریاست کے خلاف بغاوت کے لیے شہریوں کو اکسانے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان کا قانون قرآن اور سنت کے منافی نہیں ہے، ججز نے آسیہ بی بی سے متعلق جو فیصلہ دیا وہ آئین کے مطابق ہے اور پاکستان کا آئین قرآن اور سنت کے ماتحت ہے‘‘۔ منتخب وزیراعظم کی قابل اعتراض بات یہ ہے کہ انہوں نے عوام کی نمائندگی کرنے والے مشتعل لوگوں پر تنقید کی، ایسا کرتے ہوئے ملک کو مدینہ کی طرز کی ریاست بنانے کا عزم کرنے والے عمران خان شاید یہ بھول چکے ہیں کہ پاک وطن کے لوگ ہر معاملے میں مصالحت کرسکتے ہیں مگر توہین رسالت کرنے والوں کو برداشت نہیں کرسکتے۔ وزیراعظم نے کراچی سے اسلام آباد تک مذکورہ فیصلے کے بعد شدید احتجاج کو ایک چھوٹے سے طبقے کا احتجاج کہہ کر بھی مشتعل افراد کے جذبات کی توہین کی ہے یہ توہین کسی بھی ادارے کی توہین سے کم نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰکے فیصلے پر تمام فقہ سے تعلق رکھنے والے علما کرام نے تنقید کی اور اسے غلط فیصلہ قرار دیا۔ ممتاز عالم دین مفتی امام دین نے کہا کہ ’’ میں پوری ذمے داری سے کہہ رہا ہوں کہ ایسا لگتا ہے کہ اس فیصلے کی پشت پر عالمی دباؤ ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے مجرمہ آسیہ کو ریلیف ملا جس سے بظاہر یہ انصاف کا فیصلہ نہیں لگتا۔ ممتاز عالم دین و رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے بھی مذکورہ فیصلے پر تنقید اور اس کی مخالفت کی ہے۔ مذکورہ فیصلے کے بعد پورے ملک کی فضاء کشیدہ ہوگئی جبکہ کراچی کے لوگوں نے تقریباً 3سال بعد پرامن احتجاج کو دیکھا۔ کراچی بند ہونے سے لوگوں کو الطاف حسین اور ان کی طرف سے دی جانے والی احتجاج کی خطرناک ’’کالز ‘‘ یاد آگئیں۔ فیصلے پر اب جمعہ کو جماعت اسلامی نے بھی ملک بھر میں احتجاجی ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چونکہ معاملہ دینی جذبات کا ہے اس لیے خدشات ہیں کہ یہ احتجاج اپنے منطقی انجام تک پہنچے بغیر ختم نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں نامور آئینی و قانونی ماہر خواجہ نوید ایڈوکیٹ نے کہا کہ اس فیصلے پر اعتراض کرنے والی شخصیات کو عدالت عظمیٰ سے رجوع کرکے نظر ثانی کی درخواست دائر کرنی چاہیے۔