اسرائیل اور عمان میں کیا کھچڑی پکی ہے

332

ایک اسرائیلی طیارے کی پاکستان میں لینڈنگ مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ حکومت تردید کررہی ہے، اپوزیشن الزام لگارہی ہے، تردید پر کوئی یقین نہیں کررہا ہے، سماجی ذرائع ابلاغ نے پورے سماج کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہ زیادہ ہوگیا ہمارا سماج اب کسی بات پر نہیں ہلتا۔ بس چسکے لیتا ہے، اس خبر کے بھی چسکے لیے جارہے ہیں اس شور شرابے میں پاکستان میں بہت کچھ ہورہا ہے۔ حکومت پٹرول، گیس، بجلی مہنگی کرچکی، ٹیکس میں اضافہ کرچکی، اب 62 اداروں کی نجکاری کی باری ہے۔ سب بیچ دینے کے چکر میں ہیں اور میڈیا اور اس کے سامع یا ناظر چسکے لے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اب میڈیا کو حقائق چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وہ زمانہ گزر گیا جب میڈیا حقائق سامنے لاتا تھا۔ ایسا ہی اس معاملے میں بھی ہوگیا۔ اس کی تفصیل میں جانے سے قبل کئی سال قبل کا وہ دن یاد کریں جب مصری جرنیل عبدالفتاح السیسی نے رابعہ عدویہ پر مظاہرین کے خلاف براہ راست فائرنگ، ان پر ٹینک چڑھانے اور لاشیں جلانے کا مجرمانہ کام کیا تھا۔ امت مسلمہ کے درد سے لبریز پاکستانی قوم کو اس کا علم اگلے روز ہوا۔ اس کی وجہ میڈیا تھا۔ سکندر بلوچ نامی ایک صاحب نے دو کلااشنکوف یا کوئی اور بندوقیں اٹھا رکھی تھیں اس کی گاڑی میں بیوی اور بچے تھے وہ پارلیمنٹ کو یرغمال بنارہا تھا کم از کم میڈیا یہی بتارہا تھا کہ ایک آدمی نے پارلیمنٹ ہاؤس کو یرغمال بنالیا ہے یہ ڈراما رات 12 بجے تک چلتا رہا اس کے بعد اس پر تبصرے بھی ہوتے رہے اور یوں سارا پاکستان سکندر بلوچ کا جعلی ڈراما دیکھتا رہا کسی کو علم ہی نہیں ہوا کہ مصر میں کیا قیامت آگئی۔
اب ذرا اسرائیلی طیارے کے ڈرامے کی طرف آئیں۔ یہ اسرائیلی طیارہ اسرائیل سے اڑا اور عمان پہنچا جہاں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے لیے عمان کی شاہی قیادت سرخ قالین بچھائے کھڑی تھی۔ یہ کوئی 22 برس بعد اسرائیل عرب تعلقات کا آغاز تھا۔ اور اس کی سطح سفارتی یا وزراتی نہیں تھی سربراہ حکومت کا سرکاری دورہ تھا۔ اس پر دنیا نے توجہ مبذول کی ہے لیکن پاکستانی قوم کو ایک مرتبہ پھر سکندر بلوچ والا ڈراما دکھا دیا گیا۔ ایک اسرائیلی صحافی نے تو بہت کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کو لے جانے والے طیارے کی اگلی منزل اسلام آباد تھی۔ اور پھر بہت سی کہانیاں ممکن ہے ایسا ہی ہوا ہو۔ لیکن اسلام آباد میں اسرائیلی وزیراعظم کی کسی سرگرمی کی کوئی اطلاع نہیں ہے البتہ طیارے کی موجودگی کی اطلاع صحافتی اور بین الاقوامی ذرائع سے ملی ہے لیکن اسرائیلی وزیراعظم کے طیارے کی پہلی منزل پر کہیں سے آواز نہیں اٹھی۔ 22 برس بعد اتنی اعلیٰ سطح پر دورے میں کیا باتیں ہوئیں، عمان اسرائیل کو کیا آسانیاں دے گا۔ مشرق وسطیٰ میں آنے والے دنوں میں کیا ہونے جارہا ہے، آبنائے ہرمز کے حوالے سے عمان کی دفاعی پوزیشن بہت اہم ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ آبنائے ہرمز کے ذریعے کس کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔ دسمبر 2007ء اور جنوری 2008ء میں اسی آبنائے میں ایرانی اور امریکی بحریہ آمنے سامنے تھے اور ایک جنگ کی کیفیت تھی لیکن امریکی بحری جہازوں کی یہاں آمد کا مقصد ایران پر حملہ یا اس کا محاصرہ نہیں تھا یہ کام کسی اور طرح بھی ہوسکتا تھا لیکن اس دوران اس پہلو سے بھی جائزے لیے گئے۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم عمان کے تفصیلی دورے پر کیا کرنے گئے تھے، اس کا جواب اسرائیل کے بارے میں عمان کے امور خارجہ کے وزیر یوسف بن علووی کے بیان سے ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اسرائیل خطے کا ملک ہے اس کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا جائے۔ آخر ایسی کیا تبدیلی آگئی ہے کہ برسوں سے غزہ کے فلسطینیوں کا محاصرہ کرنے والا ملک اچھے سلوک کا مستحق بن گیا۔ فلسطینیوں کی زمین پر قابض۔۔۔ سب سے بڑھ کر قبلہ اوّل پر قابض اسرائیل کس طرح اچھے سلوک کا مستحق بن گیا۔ روزانہ فلسطینیوں کا قتل الگ جرم ہے۔ اس حوالے سے حماس کے ترجمان کا بیان بھی واضح ہے کہ اسرائیل عالمی سطح پر جنگی جرائم کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہے، اس لیے عرب ممالک سے تعلقات بنانا چاہتا ہے اور عرب ممالک آج کل صرف ایران دشمنی میں لگے ہوئے ہیں لیکن بات عمان پر تو ختم نہیں ہوتی۔ بحرین کا رخ بھی ہونے والا ہے جہاں ایک کانفرنس میں ایران کے خلاف امریکا، بحرین، مصر اور عرب ممالک کے اتحاد کی تجویز پر غور کیا گیا۔ عربوں کو تو یہی بتایا گیا ہے کہ نشانہ ایران ہے لیکن مغرب کی عیاری سے تو اب عربوں کو بھی آگاہ ہوجانا چاہیے، کہیں پہ نگاہیں اور نشانہ کہیں اور ہوتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان یاد کریں۔ جس میں کہا گیا تھا کہ ہم چاہیں تو دو ہفتے میں سعودی حکومت گرادیں۔ اگرچہ انہوں نے کوشش کی اور سعودی صحافی خاشق جی کے ترکی میں قتل کے ذریعے سعودی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم عرب ممالک سے کیوں دوستی کررہے ہیں۔ پاکستان میں اس کے طیارے کی آمد کی خبر تو محض اس لیے چھیڑی گئی یا چھوڑی گئی کہ اسرائیل عمان تعلقات اور سودے بازی پر کوئی بات نہ کرسکے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے عمان سے کیا منوایا ہے کیا رعایتیں لی ہیں، عمان کو کیا ملے گا، اس رائے سے امریکا کو موقع تو نہیں دیا جائے گا۔ یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے، اسرائیلی موقف یہ ہے کہ عمان نے اسرائیلی وزیراعظم کا خیر مقدم کرکے اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں قبولیت کی بات کی ہے جو مشرق وسطیٰ کے حق میں بہتر ہے۔ گویا یہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی قبولیت کے لیے راہ ہموار کرنے کا دورہ بھی تھا اور پاکستان میں بھی جنرل پرویز اور خورشید قصوری کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے شوشے اور اس پر بات چیت کے ایجنڈے کو بھی ایک بار پھر آگے بڑھایا جارہا ہے۔ اسمبلی، سینیٹ، اخبارات، ٹی وی ہر جگہ اسرائیل سے تعلقات کی بات ہورہی ہے کہ یہ ہونے چاہئیں یا نہیں۔ گویا اسرائیل نے ایک تیر سے دو شکار کرلیے۔ طیارے کی آمد میں کسی حقیقت کی موجودگی یا محض افواہ کے نظریے کو ایک طرف رکھیں، پاکستان میں اسرئیل سے تعلقات کی تردید کرکے بحث کیوں چھیڑی جارہی ہے۔