بائیس کروڑ قیدی

239

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت‘ عدالت عظمیٰ نے ملعونہ آسیہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے غیر مستند شہادتوں کی بنیاد پر اسے بری کردیا ہے‘ عدالت عظمیٰ آئین کی محافظ ہے اور قانون کی تشریح کرنے کا بھی اختیار اسی کے پاس ہے، آسیہ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ اسلام آباد کو دوسرے شہروں سے ملانے والا چوک‘ فیض آباد ایک بار پھر بند کردیا گیا جس سے اسلام آباد کا زمینی راستہ راولپنڈی اور دیگر شہروں سے کٹ گیا آسیہ کیس بلا شبہ ایک ٹیسٹ کیس ہے اور تھا‘ اس امتحان میں کون کامیاب ہوا اور کون ناکام رہا؟ یہ بحث قاری پر چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کا رد عمل سامنے آیا کہ ملک کے تمام اداروں کو عدالت عظمیٰ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے عدالت عظمیٰ کے ساتھ کون نہیں کھڑا‘ بلاول کو یہ بھی بتا دینا چاہیے تھا اور یہ بھی بتادیں کہ وہ خود کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی خوبی ہے یا حکمت عملی کہ جہاں امیج بلڈنگ کرنی ہوتی ہے وہاں بلاول بولتے ہیں اور جہاں ڈیل کرنی ہوتی ہے وہاں آصف علی زرداری بولتے ہیں دونوں نے انتظامی امور کی خوب تقسیم کر رکھی ہے‘ اس فیصلے کے بعد اب سارا بار دینی جماعتیں اٹھائیں گی اور پھر کہا جائے گا کہ پاکستان میں انتہاء پسندی ہے یہ کیسی انتہاء پسندی ہے؟ پاکستان اپنا ملزم دنیا سے مانگے تو قانون آڑے آجاتے ہیں اور اقوام عالم یہ مطالبہ پاکستان سے کرے تو ہم بھارتی ایجنٹ کشمیر خان بھی چھوڑدیتے ہیں۔ کل بھوشن کو بھی سزا نہیں دے پاتے‘ برطانوی نژاد طاہر یہاں راولپنڈی میں ایک ٹیکسی ڈرائیور قتل کرکے بھی ریڈ پاسپورٹ کی وجہ سے جیل سے رہا کردیا جاتا ہے اور زاید مدت قیام کے معمولی جرم میں پاکستان کے ہزاروں قیدی دنیا بھر کی جیلوں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے پاکستان سے مسلسل مطالبہ کرتے آئے ہیں یہ کہ یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور وہ ہمیں قرض کی شکل میں مالی امداد دینے والے اداروں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر جو کچھ بھارتی فوج کر رہی ہے اس پر خاموشی ہے انسانی حقوق کے لیے دنیا کے یہ دہرے معیار ہیں۔ کشمیری گزشتہ 70سال سے آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اس کا جواب ان کو گولیوں سے دیا جاتا ہے، اب تک 90ہزار کشمیری مسلمان شہید کیے جا چکے، ہزاروں کو پیلٹ گنوں کی فائرنگ سے آنکھوں کی روشنی سے محروم اور معذور کیا گیا، خواتین کی بے حرمتی بھی کی گئی، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی مسلح افواج آٹھ لاکھ سے زیادہ ہیں‘ جدید ترین اسلحہ اور آلات سے لیس یہ فوجی چُن چُن کر تعلیم یافتہ نوجوان کشمیریوں کو شہید کرتے ہیں، شہدا کی میتیں گم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نمازِ جنازہ کی ممانعت ہے انسانی حقوق کے علمبردار یورپی اور امریکی اس انسانیت سوز عمل پر خاموش ہیں، اب رہ گئی اسلامی کانفرنس‘ سوال یہ ہے کہ وہ کہاں ہے؟ ہمیں تو اتنا پتا ہے کہ ایک آسیہ رہا نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کے بائیس کروڑ لوگ قیدی بنادیے گئے ہیں۔ اس صورت حال کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ پتھر باندھ دیے گئے ہیں اور کتے چھوڑ دیے گئے ہیں۔
ابھی تین ماہ قبل میانمر سے جبری ملک بدر کیے گئے مظلوم روہنگیا مسلمانوں نے اپنی بے وطنی کا ایک برس مکمل ہونے پر احتجاجی مظاہرہ کیا لیکن اقوام متحدہ کے نذدیک روہنگیا مسلم اقلیت کے لیے انصاف کے تقاضے کچھ اور ہیں ان کے لیے یہی آزادی کافی ہے کہ وہ بے سرو سامانی اور کسمپرسی کے عالم میں مہاجر کیمپوں میں زندگی کے دن پورے کریں اور کشمیری سرنگر میں ذبح ہوتے رہیں۔ فلسطینی اسرائیلی فوج کی گولیوں کی خوراک بنتے رہیں ابھی حال ہی میں سات ججوں پر مشتمل یورپ کی اعلیٰ عدالت برائے انسانی حقوق نے ایک بہت اہم فیصلہ دے کر متعصب لوگوں کے منہ بند کر دیے ہیں اور نبی آخر زمان‘ جن پر ہمارے ماں باپ اور ہماری اولاد اور ہماری نسل قربان محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اعتراف کر لیا ہے۔ اس عدالت نے قرار دیا ہے کہ نبی اکرمؐ کی توہین کو آزاد�ئ اظہار قرار نہیں دیا جا سکتا۔
آسٹریا کی ایک متعصب خاتون نے چھوٹی عمر میں خواتین کی شادیوں پر متعدد مجالس مذاکرہ منعقد کرائیں اور اِس آڑ میں توہین آمیز کلمات کہے۔
شکایت پر آسٹرین عدالت میں خاتون کے خلاف مقدمہ چلا اور اُسے جرمانے کی سزا دی گئی خود اِس عورت نے اپنی اِس سزا کے خلاف انسانی حقوق کی اعلیٰ عدالت میں اپیل کی تھی، اس عدالت نے سزا برقرار رکھی اور اپیل مسترد کر دی۔ فل بنچ کا فیصلہ متفقہ ہے۔ اس میں کہا گیا نبی اکرمؐ کی توہین کو آزاد�ئ اظہار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِس خاتون نے تاریخی واقعات کو مسخ کیا اِس سے معاشرے میں نفرت پھیلی اور لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ اِس فیصلے کو تاریخی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسے خطے کے فاضل جج حضرات پر مشتمل سات رکنی بنچ نے متفقہ طور پر توہین اور اظہارِ رائے کی آزادی کا فیصلہ کر دیا ہے، جہاں تک ہم مسلمانوں کا تعلق ہے تو ہم اپنے پیارے رسولؐ کی تعلیمات کے مطابق نہ صرف تمام انبیا ؑ بلکہ دوسرے مذاہب کا بھی احترام کرتے ہیں۔ پھر اگر کوئی پیغمبر اسلامؐ پر تنقید کرے تو ہم کیسے برداشت کر سکتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ بیرونی دُنیا بھی خود اپنی عدالت کے فیصلے کا احترام کرے گی اور اب یہ سلسلہ بند ہو جائے گا اب ہم پیپلزپارٹی کی چئرمین سے صرف یہ کہتے ہیں کہ کیا وہ بھی اس عدالت کے ساتھ کھڑے ہیں یا نہیں۔